
پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی نے قومی ٹیم کے موجودہ ہیڈ کوچ عاقب جاوید پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں "مسخرہ" قرار دیا ہے۔ گلیسپی نے انکشاف کیا کہ عاقب جاوید خود کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے تمام فارمیٹس کا کوچ بنانے کے لیے پس پردہ مہم چلا رہے تھے۔
آسٹریلیا کے سابق ٹیسٹ کرکٹر جیسن گلیسپی نے فوٹو شیئرنگ ایپ 'انسٹاگرام' پر ایک اسٹوری شیئر کی، جس میں انہوں نے عاقب جاوید پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ گلیسپی کا کہنا تھا کہ عاقب جاوید نے قومی وائٹ بال ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ گیری کرسٹن اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

گلیسپی نے انکشاف کیا کہ عاقب جاوید پاکستان کرکٹ ٹیم کے تمام فارمیٹس (ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی20) میں کوچ بننے کے لیے پس پردہ مہم چلا رہے تھے، کیونکہ وہ خود تینوں فارمیٹس کا کوچ بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے عاقب جاوید کے حالیہ بیان کو حیران کن قرار دیتے ہوئے انہیں "جوکر" کہا۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے جنوبی افریقہ کے دورے کے لیے اسسٹنٹ کوچ ٹم نیلسن کے کنٹریکٹ میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے پر جیسن گلیسپی پی سی بی سے ناراض ہو گئے اور انہوں نے جنوبی افریقہ جانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد پی سی بی نے عاقب جاوید کو قومی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کا عبوری ہیڈ کوچ مقرر کر دیا تھا۔
اس سے قبل، نومبر 2024 میں پی سی بی نے عاقب جاوید کو چیمپئنز ٹرافی تک قومی وائٹ بال ٹیم کا عبوری ہیڈ کوچ مقرر کیا تھا۔ اکتوبر 2024 میں پاکستان وائٹ بال ٹیم کے ہیڈ کوچ گیری کرسٹن اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ انہوں نے پی سی بی اور سلیکشن کمیٹی کے رکن عاقب جاوید سے اختلافات کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا۔
جیسن گلیسپی کے ان الزامات نے پاکستان کرکٹ میں نئے تنازعات کو جنم دیا ہے۔ عاقب جاوید نے ابھی تک ان الزامات پر کوئی سرکاری ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم، یہ معاملہ کرکٹ حلقوں میں بحث کا موضوع بن گیا ہے۔
پی سی بی کی جانب سے اب تک کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پی سی بی اس معاملے پر کیا اقدامات کرتی ہے اور کیا عاقب جاوید کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی ہے۔
کرکٹ کے شائقین اور ماہرین کی توجہ اس معاملے پر مرکوز ہے، کیونکہ یہ پاکستان کرکٹ کے انتظامی معاملات کو متاثر کر سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تنازعہ کس طرح نمٹایا جاتا ہے اور کیا اس کا اثر قومی ٹیم کی کارکردگی پر پڑتا ہے۔
اب تک کی صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کرکٹ میں اندرونی سیاست اور اختلافات کا یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ اب پی سی بی اور دیگر ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو شفافیت کے ساتھ نمٹائیں، تاکہ کرکٹ کی ترقی کو نقصان نہ پہنچے۔