
ڈیرہ اسماعیل خان: ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک غیر قانونی پنچایت کے فیصلے کے خلاف ایک باپ نے اپنی بیٹی کو ونی ہونے سے بچانے کے لیے جان دے دی۔ واقعہ میں، باپ نے خودکشی سے پہلے اپنے موبائل فون میں ایک وائس نوٹ ریکارڈ کیا، جس میں پنچایت کے غیر قانونی فیصلے کا پردہ فاش کیا اور چار ارکان کو بیٹی کو ونی کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔
آڈیو پیغام میں باپ نے کہا کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی اور زبردستی اسٹامپ پیپر پر دستخط کراکر فیصلہ تھوپا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے اپنی جان دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "بس بیٹی بچ جائے، وہ اپنی بیٹی پر قربان ہو رہا ہے۔ اب یہ حرام موت ہے یا جو بھی ہے، خدا حافظ۔"
باپ نے آڈیو پیغام میں مزید بتایا کہ اس نے اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے بھانجے سے طے کر رکھا تھا، لیکن پنچایت نے لڑکی کو ونی کی سزا اس کے منگیتر کی طرف سے کسی اور لڑکی سے رابطے کرنے پر سنائی۔ دوسری لڑکی کے والد نے 7 لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا اور بدلے میں لڑکی بھی مانگی تھی۔
اس سارے معاملے کے دوران پولیس لاعلم رہی، لیکن جب خودکشی کرنے والے شخص کا آڈیو نوٹ وائرل ہوا تو پولیس حرکت میں آ گئی۔ پولیس نے پنچایت کے تین ارکان کو گرفتار کر لیا، جبکہ چوتھا ملزم فرار ہو گیا۔
یہ واقعہ سماجی میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کر گیا ہے۔ لوگوں نے غیر قانونی پنچایتوں کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ کئی سماجی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ونی کی رسم، جو پاکستان کے کچھ علاقوں میں اب بھی رائج ہے، کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔ اس رسم کے تحت لڑکیوں کو تنازعات کے حل کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، جسے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
پولیس نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس معاملے میں سخت قانونی کارروائی کرے گی اور باقی ماندہ ملزم کو بھی جلد از جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی پنچایتوں کے خلاف سخت قوانین بنائے اور ان کے خلاف موثر اقدامات کرے۔
یہ واقعہ سماجی ناانصافی اور غیر قانونی روایات کے خلاف جنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ حکومت اس معاملے میں فوری اور شفاف کارروائی کرے گی تاکہ ایسے واقعات کو مستقبل میں روکا جا سکے۔