بلوچستان کے علاقے مچھ کے قریب جعفر ایکسپریس پر ہونے والے خوفناک حملے کے بعد کئی کہانیاں منظرِ عام پر آئی ہیں، مگر ان میں سے ایک کہانی، جو ریلوے پولیس کے ایک اہلکار نے بیان کی، خاصی ہولناک ہے۔ ان کے مطابق، جب حملہ ہوا، تو ٹرین کسی سرنگ میں نہیں تھی بلکہ ایک کھلی جگہ پر تھی، اور حملہ آوروں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔
جعفر ایکسپریس کوئٹہ سے پشاور جا رہی تھی اور اس میں 400 سے زیادہ مسافر سوار تھے۔ ریلوے پولیس کے ایک اہلکار نے، جو حملے میں زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ٹرین پر حملہ اچانک ہوا۔
"اچانک ریلوے ٹریک پر ایک دھماکہ ہوا، جس کے بعد گاڑی رک گئی۔ اس کے فوراً بعد راکٹ لانچروں سے حملہ شروع ہو گیا، اور ہمیں اندازہ ہو گیا کہ صورتحال سنگین ہے۔"
پولیس اہلکار کے مطابق جب حملہ آور آئے تو وہ پہاڑوں پر کھڑے تھے اور تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ "وہ ہم سے کہیں زیادہ تھے، سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔ ہم سات آدمی تھے، پانچ ریلوے پولیس اور دو ایف سی کے اہلکار۔"
اہلکار نے بتایا کہ انہوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جوابی فائرنگ شروع کی۔ "میرے پاس جی تھری رائفل تھی اور میرے 60 راؤنڈ تھے۔ ہم نے سوچا کہ زیادہ سے زیادہ دیر مقابلہ کریں تاکہ مسافروں کو بچا سکیں۔"
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا، مگر پولیس اہلکاروں کے پاس محدود گولیاں تھیں۔ "ہمارے پاس 60، 40 یا اس سے بھی کم گولیاں تھیں۔ ڈیڑھ گھنٹے میں ہمارا ایمونیشن ختم ہو گیا، اور جب حملہ آوروں کو معلوم ہوا کہ ہم جوابی فائرنگ نہیں کر رہے تو وہ نیچے اتر آئے۔ ہم بے بس تھے، میں نے اپنی رائفل پھینک دی، کیونکہ اگر وہ میرے ہاتھ میں رائفل دیکھ لیتے تو فوراً مار دیتے۔"
ریلوے پولیس اہلکار نے بتایا کہ حملہ آوروں نے مسافروں کو ٹرین سے اتار کر ان کی زبان اور شناخت کے مطابق گروہوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ "وہ لوگوں سے پوچھ رہے تھے کہ تمھاری زبان کیا ہے؟ تمھاری ذات کیا ہے؟ پنجابی، پٹھان، بلوچ، سندھی، سب کو علیحدہ علیحدہ کر رہے تھے۔"
ان کے مطابق، شدت پسند فوج اور سرکاری اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کی شناخت کر رہے تھے اور جن کو وہ فوجی سمجھتے تھے، ان کے ہاتھ باندھ دیے جاتے تھے۔
ریلوے پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا کہ شدت پسندوں کے پاس واضح احکامات تھے کہ کن لوگوں کو قتل کرنا ہے۔ "ان کو آرڈر ملتا تھا کہ مار دو، اور وہ فوراً عمل کر دیتے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ انہوں نے کئی لوگوں کو قتل کر دیا، جن میں عام شہری بھی شامل تھے۔"
رات ہوتے ہی حملہ آوروں کا ایک بڑا گروہ وہاں سے روانہ ہو گیا، مگر کچھ شدت پسند وہیں موجود رہے۔ اسی دوران، پولیس اہلکار نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر فرار ہونے کا منصوبہ بنایا۔
"جب صبح ایف سی والے پہنچے تو حملہ آوروں کا دھیان ان کی طرف چلا گیا۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اب موقع ہے، ہمیں بھاگنا ہوگا۔ جیسے ہی ہم دوڑے، پیچھے سے گولیاں چلنا شروع ہو گئیں، اور میرے ساتھی کو گولی لگ گئی۔ میں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی، مگر وہ بہت زخمی ہو چکا تھا۔ پھر ایک اور شخص نے مدد کی، اور ہم کسی نہ کسی طرح پہاڑوں کے نیچے اتر آئے۔"
اہلکار کے مطابق، جب وہ زخمی حالت میں قریبی ریلوے اسٹیشن پہنچے تو وہاں ایف سی کے اہلکار موجود تھے۔ "ہمارے چہرے پر خون ہی خون تھا، ایف سی والوں نے ہمیں سنبھالا اور مچھ لے گئے۔ وہاں جا کر ہمیں احساس ہوا کہ ہم واقعی بچ گئے ہیں۔"
Last edited: