
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس سانحے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں تشدد کرنے والے گروہ پاکستان اور بلوچستان کے خیرخواہ نہیں ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جو پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ گروہ صرف حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں، ان کے ذہنوں سے یہ غلط فہمی دور ہو جانا چاہیے۔
خرم دستگیر نے کہا کہ بیک وقت انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانا، اغوا اور قتل جیسے اقدامات پوری دنیا میں تشویشناک سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی تنظیموں کے خلاف ریاست کو اپنے تمام وسائل استعمال کرنے چاہئیں تاکہ انہیں ختم کیا جا سکے۔
انہوں نے بیرون ملک بیٹھے بلوچ نام نہاد رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کریں اور ہر قسم کی دہشتگردی اور تشدد سے اپنا تعلق توڑنے کا اعلان کریں۔ خرم دستگیر نے کہا کہ خاص طور پر وہ لوگ جو حال ہی میں بلوچ قوم کے نام نہاد رہنما بن کر سامنے آئے ہیں، ان کی خاموشی معنی خیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ رہنما واقعی بلوچ عوام کے خیرخواہ ہیں، تو انہیں تشدد کی مذمت کرنی چاہیے اور اپنے آپ کو دہشتگردی سے مکمل طور پر الگ کرنا چاہیے۔
خرم دستگیر نے کہا کہ جینیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر کے قریب رہنے والے بلوچ رہنماوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ رہنما خاموش رہتے ہیں، تو یہ ان کی خاموشی ان کے تشدد پسند رویے کی عکاسی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کو ایسے گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے چاہئیں، کیونکہ یہ گروہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ خرم دستگیر نے زور دے کر کہا کہ بلوچستان کے عوام کو ان گروہوں کی حقیقت کا ادراک ہو جانا چاہیے، کیونکہ یہ گروہ نہ تو بلوچ عوام کے حقوق کے لیے کام کر رہے ہیں اور نہ ہی وہ بلوچستان کے مفاد میں ہیں۔
خرم دستگیر کی یہ باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں تشدد کی کارروائیوں کے خلاف ریاستی اقدامات کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی بیرون ملک بیٹھے بلوچ رہنماؤں کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ رہنما واقعی بلوچ عوام کے خیرخواہ ہیں، تو انہیں تشدد کی مذمت کرتے ہوئے امن کے عمل میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔