
تجزیہ کار شہباز رانا اور کامران یوسف نے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاہدے اور چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے منصوبوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کی عدم موجودگی اور سی پیک کے تحت ریلوے کے نظام کی اپ گریڈیشن میں تاخیر جیسے اہم مسائل پر روشنی ڈالی۔
شہباز رانا نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام "دی ریویو" میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں جب بھی کسی ملک کا آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی پروگرام ہوتا ہے، تو اس کا دارومدار اسٹاف لیول معاہدے پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا حالیہ بیان مثبت ہے، لیکن اس میں سب سے اہم سوال کا جواب موجود نہیں ہے، یعنی کیا پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ ہو گیا ہے؟
شہباز رانا نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم بغیر کسی معاہدے کے واپس واشنگٹن چلی گئی ہے، جو ایک تشویشناک بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا بیان وزارت خزانہ کو "فیس سیونگ" دے رہا ہے، کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ تمام معاملات اچھے ہیں، لیکن حقیقت میں اسٹاف لیول معاہدہ طے نہیں ہو سکا ہے۔
تجزیہ کار کامران یوسف نے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے تحت ریلوے کے نظام کی اپ گریڈیشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کئی منصوبوں پر کام ہوا ہے، لیکن کئی اہم پراجیکٹس پر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ انہوں نے خاص طور پر کراچی سے پشاور تک مین لائن-1 (ایم ایل 1) کی اپ گریڈیشن کا ذکر کیا، جس کے تحت نئی پٹڑیاں بچھانی تھیں اور ریل گاڑیوں کی رفتار بڑھانی تھی۔
کامران یوسف نے کہا کہ چین اور پاکستان کی طرف سے مثبت بیانات کے باوجود، زمینی سطح پر اس منصوبے پر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ انہوں نے وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی کے حالیہ بیان کو "حیران کن" قرار دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اپنے وسائل سے ML-1 منصوبے کو مکمل کرے گا۔