
لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عبہر گل خان نے تحریک انصاف کے کارکنان عثمان محمود اور فرحان احمد چشتی کی بازیابی کے لیے دائر آئینی درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے، جس پر قانونی ماہرین، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کی جانب سے شدید اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔
جسٹس عبہر گل نے درخواستیں ابتدائی سماعت پر ہی خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ سیکریٹری دفاع ایک حاضر سروس فوجی افسر ہیں اور آئین کے آرٹیکل 199(3) کے تحت عدالت ان کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی۔ مزید کہا گیا کہ چونکہ سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ رینک کے افسر ہیں اور ان کا دفتر راولپنڈی میں ہے، اس لیے لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، جس کی بنیاد پر درخواستیں ناقابل سماعت قرار دی گئیں۔
صحافیوں اور قانونی ماہرین نے اس فیصلے میں کئی نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے آئین کی غلط تشریح اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جسٹس عبہر گل نے آئینی شقوں کو درست طریقے سے سمجھنے کے بجائے ایک ایسا فیصلہ دیا جو کئی حقائق سے متصادم ہے۔
سب سے پہلی غلطی یہ ہے کہ سیکریٹری دفاع حاضر سروس فوجی افسر نہیں بلکہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل محمد علی ہیں۔ اس کے علاوہ، آرٹیکل 199 فوجی افسر کے خلاف حکم جاری کرنے سے نہیں روکتا، بلکہ صرف ان کے سرکاری امور میں مداخلت سے متعلق ہے۔ اگر کسی شہری کو جبری طور پر لاپتہ کرنا یا غیر قانونی حراست میں رکھنا فوجی افسر کے سرکاری کام کا حصہ سمجھا جائے، تو یہ ایک خطرناک نظیر قائم کر دے گا، جو بنیادی انسانی حقوق اور آئین کی روح کے خلاف ہے۔
فیصلے کے ایک اور حصے میں لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ راولپنڈی اس کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس نکتے پر قانونی ماہرین نے اعتراض کیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے ماضی میں کئی ایسے کیسز سنے اور ان پر فیصلے دیے جو راولپنڈی سے متعلق تھے، لہٰذا اس دلیل کی کوئی نظیر موجود نہیں۔
صحافی مریم نواز نے اپنے تفصیلی ٹویٹ میں کہا آئینی عدالت کی جج کا خوف یا آئین کی ناقص سمجھ؟ لاہور ہائیکورٹ کی جج جسٹس ابہر گل خان نے بنیادی حقوق کے تناظر میں دائر ہونے والی آئینی درخواست پر اپنا عجیب و غریب فیصلہ دیا جس کو حقائق کی رو سے دیکھیں تو صرف غلطیاں ملیں گی۔
26ویں ترمیم کے بعد بننے والے جوڈیشل کمیشن سے تقرر ہونے والی لاہور ہائیکورٹ کی ایڈشنل جج جسٹس ابہر گل خان (جو اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس عالیہ نیلم کی لگائی گئی رجسٹرار تھیں) نے PTI کے دو کارکنان عثمان محمود اور فرحان احمد چشتی کے مقدمات کو یہ کہہ کر پہلی ہی سماعت پر خارج کر دیا کہ آپ نے درخواست میں سیکریٹری دفاع کو فریق بنایا اور کہا کہ یہ افراد جب اٹھائے گئے تو ایلیٹ فورس کی وردیاں پہنے افراد CcTV میں نظر آئے اور یہ کہ یہ سیکریٹری دفاع کی غیر قانونی حراست میں ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1901963235701461379
مریم نواز نے مزید لکھا پھر جج صاحبہ فیصلے میں لکھتی ہیں نمبر ایک: چونکہ سیکریٹری دفاع حاضر سروس فوجی افسر ہیں اور آرٹیکل 199(3) کے تحت ان کے خلاف حکم نہیں دے سکتی۔ نمبر دو: سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ رینک کے افسر ہیں اور ان کا دفتر راولپنڈی میں ہے جو (لاہور ہائیکورٹ) کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا لہذا درخواستیں خارج کی جاتی ہیں! جج صاحبہ کے ان دو حکمناموں میں نا صرف ان کی وجوہات میں حقائق کی غلط بیانی ہے بلکہ آئین کو بھی غلط طریقے سے تحریر کیا۔
https://twitter.com/x/status/1901984665021612495
مریم نواز نے کہا پہلی غلطی تو یہ کہ سیکریٹری دفاع حاضر سروس نہیں ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں جن کا نام لیفٹیننٹجنرل ریٹائرڈ محمد علی ہے، دوسرا آرٹیکل 199 فوجی افسر کے خلاف فیصلہ دینے سے نہیں روکتا بلکہ ان کے سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنے کے بارے فیصلہ دینے سے روکتا ہے! اب اگر کسی کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنا یا جبری طور پر گمشدہ کرنا فوجی افسر کے سرکاری امور میں آتا ہے اور اس پر بنیادی حقوق کی بنیاد پر آئین پاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت حبس بےجا کی درخواست نہیں ہو سکتی اور وہ بھی تب جب فوجی افسر بھی ریٹائرڈ اور سول پوسٹ پر ہو تو یہ فیصلہ دینے والے کی اعلی دانست ہو سکتی ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں! آخر میں لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں راولپنڈی نہیں آتا یہ بھی پہلی بار لاہور ہائیکورٹ کے کسی جج نے فرمایا۔
اظہر مشوانی نے کہا
ان آرڈرز کو پڑھیں اور جانیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد کیسے نااہل افراد کو ہائی کورٹ کے ججز مقرر کیا گیا ہے۔
جج عبہر گل نے مغوی عثمان محمود اور فرحان چشتی کی بازیابی کے لیے دائر پٹیشن کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ "سیکرٹری ڈیفینس ایک فوجی ہے، اس لیے وہ لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔"
حقائق:
- سیکرٹری ڈیفینس حاضر سروس نہیں، بلکہ ریٹائرڈ فوجی ہیں۔
- راولپنڈی، لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور اگر نہ بھی آئے تو ہائی کورٹ کسی بھی وفاقی ادارے کو نوٹس جاری کر سکتی ہے۔
- حبسِ بیجا (Habeas Corpus) کی پٹیشن میں سب سے پہلے تمام متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کر کے دریافت کیا جاتا ہے کہ مغوی کہاں ہے، اس کے بعد جمع شدہ شواہد کی بنیاد پر کیس آگے بڑھایا جاتا ہے۔
- عثمان محمود اور فرحان چشتی کے کیس میں CCTV فوٹیجز میں ایلیٹ فورس کی گاڑیاں اور یونیفارم پہنے افراد واضح نظر آ رہے ہیں، اس کے باوجود پولیس کو بھی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔
- اغوا کار چاہے فوجی ہو یا سویلین، قانون کے مطابق اسے نوٹس جاری کرنا ضروری ہوتا ہے۔
جج عبہر گل، جو کہ ڈی پی او اٹک کی بہن ہیں، کی واحد "قابلیت" 9 مئی کے کیسز کو لٹکانا اور تحریک انصاف کے افراد کو ضمانت نہ دینا ہے۔ اسی کارکردگی کے انعام میں جسٹس عالیہ نیلم نے انہیں خصوصی طور پر لاہور ہائی کورٹ میں تعینات کروایا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1901960697510351319
شہزاد اکبر نے کہا جسٹس عبہر گل کا حالیہ حکم، جو تحریک انصاف سے منسلک سوشل میڈیا کارکنوں کی حبسِ بیجا کی درخواست سے متعلق ہے، ان کی آئینی سمجھ بوجھ کی شدید کمی کو ظاہر کرتا ہے، جو ان کی قابلیت پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ سیکرٹری دفاع کو حبسِ بیجا کی درخواست کے دائرہ اختیار سے باہر سمجھا جائے کیونکہ وہ "فوجی اہلکار" ہیں، نہ صرف قانونی طور پر غلط ہے بلکہ حقیقت کے بھی خلاف ہے۔ سیکرٹری دفاع کوئی حاضر سروس فوجی نہیں بلکہ ایک ریٹائرڈ فرد ہیں، جو ایک سول انتظامی عہدے پر تعینات ہیں۔ یہ عہدہ واضح طور پر ہائی کورٹ کے آئینی اختیار اور قانونی دائرہ کار میں آتا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1901980971089485838
پاکستان میں عدالتی نظائر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حبسِ بیجا کی درخواستوں پر سیکرٹری دفاع کے خلاف کئی بار احکامات جاری کیے گئے ہیں، اور بعض صورتوں میں اعلیٰ عدالتوں نے انہیں ذاتی حیثیت میں طلب بھی کیا ہے۔ جسٹس عبر گل کی جانب سے اس بنیادی اصول کو نظر انداز کرنا نہایت تشویشناک ہے اور ان کی قانونی مہارت پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔
ججز، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی تعیناتی میں قابلیت کے بجائے نااہلی کو بنیاد بنانا ایک خطرناک رجحان بن چکا ہے، جو ملک میں غیر جمہوری نظام کو فروغ دیتا ہے اور احتساب کو ختم کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ تاثر بڑھتا جا رہا ہے کہ جرنیل قانون سے بالاتر ہیں اور انہیں "مقدس گائے" سمجھا جاتا ہے، جو ہمارے قانونی اور سیاسی نظام کے بحران کو مزید گہرا کر رہا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (LHCBA) اور انڈیپنڈنٹ لائرز فورم (ILF) کو فوراً کارروائی کرتے ہوئے جسٹس عبر گل کے فیصلے کے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہیے اور ان کی اہلیت پر سوال اٹھانا چاہیے۔ آئینی قوانین کی ایسی کھلی خلاف ورزی کو چیلنج کیے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی نوعیت کے ایک دوسرے مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راجہ غضنفر نے قدیر اعجاز کی جانب سے دائر درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، جب کہ جسٹس عبہر گل نے بالکل اسی نوعیت کے کیس میں درخواست کو ابتدائی سماعت پر ہی مسترد کر دیا۔
https://twitter.com/x/status/1902010365157761172
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/jPLQvvDk/sss.png
Last edited by a moderator: