
کراچی: ڈیفنس کے علاقے میں پیش آنے والے مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان نے کمرہ عدالت میں حیران کن انکشافات کرتے ہوئے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ملزم نے دعویٰ کیا کہ یہودی لابی اور موساد اسے پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ملزم نے پہلے مصطفیٰ عامر کے قتل کا اعتراف کیا، لیکن بعد ازاں اپنے بیان سے انکار کر دیا۔
کراچی کی جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی سٹی کورٹ میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کی سماعت کے دوران ملزم ارمغان کو اعتراف جرم کے لیے پیش کیا گیا۔ عدالت نے ملزم کے 164 کے بیان کی درخواست خارج کر دی، جس کی وجہ ملزم کی ذہنی حالت کو قرار دیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ ملزم کی ذہنی حالت ایسی نہیں ہے کہ اس کا بیان ریکارڈ کیا جا سکے۔
https://twitter.com/x/status/1903406190366744864 ملزم ارمغان نے ابتدائی طور پر مصطفیٰ عامر کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ذاتی تنازع کی وجہ سے کیا گیا تھا اور اس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ تاہم، بعد ازاں اس نے اپنے بیان سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ کوئی اعتراف جرم نہیں کرنا چاہتا۔
ملزم نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا، "یہودی لابی اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد مجھے پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے۔ موساد کافی عرصے سے میرے پیچھے پڑی ہے۔ مصطفیٰ عامر کی والدہ بھی یہودی لابی کا حصہ ہیں۔" اس کے علاوہ، ملزم نے پولیس پر الزام لگایا کہ انہوں نے اس پر کالا جادو کروایا ہے، جس کی وجہ سے اسے جسمانی درد ہو رہا ہے۔
ملزم نے مزید کہا، "میں نے مصطفیٰ عامر کا قتل نہیں کیا۔ میں نے انہیں گاڑی میں چھوڑ دیا تھا اور گاڑی کے اگلے حصے پر آگ لگا دی تھی۔ مصطفیٰ عامر کی زندگی کا فیصلہ میں نے اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔ اگر اللہ چاہتے تو وہ انہیں بچا لیتے۔"
عدالت نے ملزم کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کچھ وقفے کے بعد اپنے بیان سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس نے براہ راست قتل نہیں کیا۔ ملزم نے یہ بھی کہا کہ مصطفیٰ عامر کی موت ان کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی، اور وہ اس میں صرف تھوڑا بہت شریک ہے۔
ملزم نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں یہودی لابی کا حصہ ہیں، اور وہ ان کے خلاف بات کرنے کی وجہ سے ان کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
عدالت نے ملزم ارمغان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی، جہاں اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ ملزم کے اعتراف جرم سے انکار کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے اسے اے ٹی سی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ کیس ابھی تک جاری ہے، اور تفتیشی ادارے ملزم کے خلاف مزید ثبوت اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔ ملزم کے بیان میں موساد اور یہودی لابی کے حوالے سے کیے گئے دعووں نے اس کیس کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔