
ایران نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اپنا تیسرا زیرِ زمین میزائل بیس پیش کیا ہے۔ اس انکشاف کے ساتھ ہی امریکہ نے ایران پر دباؤ بڑھا دیا ہے، جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو جوہری پروگرام سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کے لیے دو ماہ کی مہلت دی ہے۔
ایران کے پاسدارانِ انقلاب (IRGC) نے اس نئی زیرِ زمین تنصیب کو "میزائل سٹی" کا نام دیا ہے، جو طویل سرنگوں پر مشتمل ہے اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔ ایران کے اعلیٰ فوجی افسران، میجر جنرل محمد حسین باقری اور IRGC ایرو اسپیس فورس کے سربراہ امیر علی حاجی زادہ، اس خفیہ اڈے کا معائنہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بیس جدید ترین میزائلوں سے لیس ہے، جن میں خیبر شکن، قدر-H، سجیل اور پاوہ لینڈ اٹیک کروز میزائل شامل ہیں، جو حالیہ حملوں میں اسرائیل کے خلاف استعمال ہوئے تھے۔ ایرانی سرکاری میڈیا کی جانب سے نشر کی گئی 85 سیکنڈ کی ویڈیو میں ان میزائلوں کی نمائش کی گئی ہے، جنہیں زیرِ زمین سرنگوں میں محفوظ رکھا گیا ہے۔

تاہم، اس بیس کی کمزوری بھی نمایاں ہوئی ہے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ تمام ہتھیار طویل، کھلی سرنگوں اور وسیع غاروں میں رکھے گئے ہیں، جہاں نہ تو دھماکوں سے بچاؤ کے دروازے ہیں اور نہ ہی کوئی محفوظ رکاوٹیں موجود ہیں، جس سے کسی بھی حملے کی صورت میں تباہ کن دھماکوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ ویڈیو اس وقت جاری کی گئی ہے جب امریکہ نے ایران پر جوہری پروگرام سے دستبردار ہونے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ اپنے جوہری پروگرام، یورینیم افزودگی اور میزائل پروگرام کو ترک نہیں کرتا، تو اسے سخت پابندیوں اور ممکنہ فوجی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایران نے ان امریکی مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو قومی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے جوہری اور میزائل پروگرامز سے دستبردار ہو گئے، تو یہ ملک بیرونی خطرات کے سامنے بے بس ہو جائے گا۔
ایران کے اس سخت موقف کے جواب میں، امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری طاقت کو بڑھاتے ہوئے دو طیارہ بردار جنگی بیڑے خطے میں تعینات کر دیے ہیں، تاکہ ایران پر اپنے مطالبات منوانے کے لیے ممکنہ فوجی کارروائی کا اشارہ دیا جا سکے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں جوہری پروگرام پر مذاکرات کی پیشکش کی گئی تھی۔ تاہم، آیت اللہ خامنہ ای نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ کو "غنڈہ گرد ملک" قرار دیا۔
دوسری طرف، یمن میں امریکی فضائی حملے تیز ہو چکے ہیں، اور ٹرمپ نے ایران کو حوثی باغیوں کے حملوں کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے۔ ایران نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حوثی باغی خودمختار طور پر کارروائی کر رہے ہیں۔
ایران کا تیسرا زیرِ زمین میزائل بیس، امریکی دباؤ کے باوجود، یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ ایران اپنے دفاعی پروگرامز سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ ایران پر مزید دباؤ ڈالے گا یا یہ تناؤ کسی بڑے تصادم میں تبدیل ہو سکتا ہے؟