اسٹیٹ بینک کے زخائر میں 54 کروڑ ڈالرز کی کمی،زخائر 6 ماہ کی کم ترن سطح پر

131654552e1bdd0.jpg

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جون سے دسمبر 2024 کے دوران بینکنگ مارکیٹ سے 5.5 ارب ڈالر کی خریداری نے ملکی زرمبادلہ کی پالیسی پر نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مارکیٹ کو توقع ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک یہ رقم گزشتہ تین سالوں میں آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ اس بڑے پیمانے پر خریداری کے باوجود اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی دیکھنے میں آئی، جس نے مالیاتی پالیسی کی کمزوریوں کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔

ملک کو رواں مالی سال کے دوران آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر بیرونی ذرائع سے 14 ارب ڈالر کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے ساتھ ساتھ 35 ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر موصول ہونے کی توقع ہے۔ پہلے آٹھ ماہ (جولائی تا فروری) میں موصول ہونے والی ترسیلات زر گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 6 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہیں۔ تاہم، اقتصادی منتظمین اب بھی ان بڑی رقوم کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے میں ناکام نظر آتے ہیں، حالانکہ کرنٹ اکاؤنٹ تاحال مثبت ہے۔

https://twitter.com/x/status/1905529376311054511
اسٹیٹ بینک کی خریداری کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جون 2024 میں 57 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، جولائی میں 72 کروڑ 20 لاکھ ڈالر، اگست میں 56 کروڑ 90 لاکھ ڈالر، ستمبر میں 94 کروڑ 60 لاکھ ڈالر، اکتوبر میں 102 کروڑ 60 لاکھ ڈالر، اور نومبر میں 115 کروڑ 10 لاکھ ڈالر خریدے گئے۔ دسمبر میں خریداری کی شرح کم ہو کر 53 کروڑ 60 لاکھ ڈالر رہ گئی، جو نومبر کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں لیکویڈیٹی برقرار رکھنے کے لیے اسٹیٹ بینک کا کردار کلیدی رہا، جس نے برآمد کنندگان کو اپنی آمدنی مارکیٹ میں فروخت کرنے پر آمادہ کیا۔

مالیاتی ماہرین کے مطابق، حکومت کو ترسیلات زر کے ذریعے آنے والے اضافی ڈالرز کو مؤثر طریقے سے بروئے کار لانے کی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ ملک کو سالانہ کم از کم 25 ارب ڈالر کی بیرونی قرضوں کی ادائیگی درکار ہوتی ہے، جو کہ 35 ارب ڈالر کی آمدنی میں سے ایک بڑا حصہ ختم کر دیتی ہے۔ دوسری جانب، بینکرز کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں کمی کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس سے درآمدات میں اضافے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کا خدشہ ہے۔

مارکیٹ میں شرح سود 12 فیصد برقرار رکھنے کے باوجود، تجارت اور صنعت کو بینکوں سے قرض لینے اور مقامی اقتصادی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے باعث 21 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 54 کروڑ ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی، جس کے بعد ذخائر 10.60 ارب ڈالر کی 6 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئے، جو کہ ستمبر میں 10.7 ارب ڈالر تھے۔

ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر 15.5 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، جن میں سے 4.94 ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے پاس ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مطابق، مالی سال کے اختتام تک زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر تک پہنچنے چاہئیں۔ تاہم، اسٹاف لیول معاہدے کے بعد 1.1 ارب ڈالر کی متوقع آمد اور آب و ہوا کے لچکدار فنڈ سے ممکنہ 1.3 ارب ڈالر کی گرانٹ سے ذخائر میں اضافے کی امید کی جا رہی ہے۔
 

Back
Top