https://twitter.com/x/status/1906369522631598442
”دہشتگردوں کے خلاف انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن ہوا“ اور پھر معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ پھر معصوم شہری ریاست کی گولی کا نشانہ بن گئے ہیں۔ رمضان، ۶ستمبر ۲۰۰۸ کو بھی ایسی ہی ایک خبر چلی تھی۔ قومی میڈیا نے جسے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کہا تھا وہ شہری آبادی پر بلا تفریق بمباری تھی کہ جس سے فقط لمحوں پہلے حکم صادر کیا گیا کہ مکیں مکان خالی کردیں۔ سانحہ یہ ہے کہ ایسے سانحوں میں جنازے صرف وہ گنے جاتے جنہیں کاندھوں پہ اٹھا کر دفن کردیا جاتا ہے جو عمر بھر کے لیے کاندھو کے محتاج ہوجاتے ہیں انہیں زندوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
دہشتگردی کی آڑ میں ہمیں صرف مارا نہیں گیا، کولیٹرل ڈیمج کے نام پر بھلا بھی دیا گیا۔ اتنی ہی سی تو حیثیت ہے ہمارے جنازوں کی بھی۔ ہم سب محض کولیٹرل ڈیمج ہی تو ہیں۔ ہمارے سالوں کی ریگزاری جوڑ کر کھڑے کیے گھر بس کولیٹرل ڈیمج ہی تو ہیں۔ ان کے ایک فیصلے کی بھینٹ چڑھانے کو میسر۔ طاقت کے اس کھیل نے کتنوں کی زندگیاں نگل لی؟ اس ڈرٹی وار نے کتنے گھر اجاڑے؟امن تھا، امن آج بھی ہوسکتا تھا، کیوں نہیں قائم رہنے دیا گیا؟ اگر کوئی یہ کہے کہ دہشت گردی شروع ہو گئی یا آگئی ہے تو یا وہ بے وقوف ہے یا اس گیم کا حصہ ہے کیونکہ ایک ایک لمحے پر ہم خبردار کرتے رہے کہ کیا کیوں کیسے کب ہو رہا ہے۔ تفصیلات سے اب کیا فائدہ، ”میں آگاہ کرتا رہا“ کہتا رہوں تو میرے کہنے سے اب کیا فائدہ کیونکہ
ریاست کے نام پر یہ خون آشام درندے تو وہی کررہے ہیں جو انہوں نے کرنا تھا، کیوں کر رہے ہیں اس پر بھی میں تفصیل سے بات کر چکا ہوں۔ مزید کروں تو بھی کیا فائدہ؟
میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں دفن کیے اور کندھوں پہ اٹھائے رکھے دونوں جنازوں کا بوجھ سہار چکا ہوں اس لیے جنازوں سے پہلے آواز اٹھا کر، بتا کر، سمجھا کر زندگیاں بچانا چاہتا ہوں ان کا معاملہ یہ ہے کہ یہ لاشوں پر بھی بیانیہ بنانا چاہتے ہیں۔
کاٹلنگ کے المیے کو یہ کولیٹرل ڈیمج کہیں گے لیکن یاد رکھیے گا دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ میں جو یہ لفظ استعمال ہوتا ہے یہ ہماری زندگیاں ہوتی ہیں۔
ان خون آشام درندوں نے تو وہی کرنا ہے جو انہیں آتا ہے۔ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ کیا کیا جائے؟ دو دن قبل امن تحریک کے اپنے ساتھیوں کو بتا دیا تھا کہ اب حالات شہری آبادیوں پر ایسی ہی بمباریوں کی طرف جا رہے ہیں، پرسوں تمام قبیلوں کے جرگے کو اگلا لائحہ عمل دینا تھا لیکن چونکہ امن کے نام لیواؤں کو دونوں ہی جانب سے خطرہ ہے لہذا انہوں نے بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ عید کے بعد پختونوں کے تمام قبیلوں کا جرگہ بلا کر لائحہ عمل دینے اور پھر تحریک چلانے کی گزارش کی اور مالاکنڈ کی طرز پر تحریک چلانے کے ہدایات دینے اور عوام کو میری طرف سے کال دینے کی درخواست کی اور جرگے کے دن سے اپنا امن بحالی تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا۔سب نے اس پر اتفاق کیا کہ ہمارا امن ہم نے خود بحال کرنا ہے اور اپنا گھر ان وحشت کے سوداگروں سے خود بچانا ہے جن کے لیے ہماری زندگیوں، ہمارے پیارو، ہمارے گھر بھار کی حیثیت ایک ڈرون حملے، ایک کراس فائر کی زد میں آکر ”کولیٹرل ڈیمج“ کہلائے جانے جتنی ہے۔
”دہشتگردوں کے خلاف انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن ہوا“ اور پھر معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ پھر معصوم شہری ریاست کی گولی کا نشانہ بن گئے ہیں۔ رمضان، ۶ستمبر ۲۰۰۸ کو بھی ایسی ہی ایک خبر چلی تھی۔ قومی میڈیا نے جسے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کہا تھا وہ شہری آبادی پر بلا تفریق بمباری تھی کہ جس سے فقط لمحوں پہلے حکم صادر کیا گیا کہ مکیں مکان خالی کردیں۔ سانحہ یہ ہے کہ ایسے سانحوں میں جنازے صرف وہ گنے جاتے جنہیں کاندھوں پہ اٹھا کر دفن کردیا جاتا ہے جو عمر بھر کے لیے کاندھو کے محتاج ہوجاتے ہیں انہیں زندوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
دہشتگردی کی آڑ میں ہمیں صرف مارا نہیں گیا، کولیٹرل ڈیمج کے نام پر بھلا بھی دیا گیا۔ اتنی ہی سی تو حیثیت ہے ہمارے جنازوں کی بھی۔ ہم سب محض کولیٹرل ڈیمج ہی تو ہیں۔ ہمارے سالوں کی ریگزاری جوڑ کر کھڑے کیے گھر بس کولیٹرل ڈیمج ہی تو ہیں۔ ان کے ایک فیصلے کی بھینٹ چڑھانے کو میسر۔ طاقت کے اس کھیل نے کتنوں کی زندگیاں نگل لی؟ اس ڈرٹی وار نے کتنے گھر اجاڑے؟امن تھا، امن آج بھی ہوسکتا تھا، کیوں نہیں قائم رہنے دیا گیا؟ اگر کوئی یہ کہے کہ دہشت گردی شروع ہو گئی یا آگئی ہے تو یا وہ بے وقوف ہے یا اس گیم کا حصہ ہے کیونکہ ایک ایک لمحے پر ہم خبردار کرتے رہے کہ کیا کیوں کیسے کب ہو رہا ہے۔ تفصیلات سے اب کیا فائدہ، ”میں آگاہ کرتا رہا“ کہتا رہوں تو میرے کہنے سے اب کیا فائدہ کیونکہ
ریاست کے نام پر یہ خون آشام درندے تو وہی کررہے ہیں جو انہوں نے کرنا تھا، کیوں کر رہے ہیں اس پر بھی میں تفصیل سے بات کر چکا ہوں۔ مزید کروں تو بھی کیا فائدہ؟
میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں دفن کیے اور کندھوں پہ اٹھائے رکھے دونوں جنازوں کا بوجھ سہار چکا ہوں اس لیے جنازوں سے پہلے آواز اٹھا کر، بتا کر، سمجھا کر زندگیاں بچانا چاہتا ہوں ان کا معاملہ یہ ہے کہ یہ لاشوں پر بھی بیانیہ بنانا چاہتے ہیں۔
کاٹلنگ کے المیے کو یہ کولیٹرل ڈیمج کہیں گے لیکن یاد رکھیے گا دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ میں جو یہ لفظ استعمال ہوتا ہے یہ ہماری زندگیاں ہوتی ہیں۔
ان خون آشام درندوں نے تو وہی کرنا ہے جو انہیں آتا ہے۔ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ کیا کیا جائے؟ دو دن قبل امن تحریک کے اپنے ساتھیوں کو بتا دیا تھا کہ اب حالات شہری آبادیوں پر ایسی ہی بمباریوں کی طرف جا رہے ہیں، پرسوں تمام قبیلوں کے جرگے کو اگلا لائحہ عمل دینا تھا لیکن چونکہ امن کے نام لیواؤں کو دونوں ہی جانب سے خطرہ ہے لہذا انہوں نے بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ عید کے بعد پختونوں کے تمام قبیلوں کا جرگہ بلا کر لائحہ عمل دینے اور پھر تحریک چلانے کی گزارش کی اور مالاکنڈ کی طرز پر تحریک چلانے کے ہدایات دینے اور عوام کو میری طرف سے کال دینے کی درخواست کی اور جرگے کے دن سے اپنا امن بحالی تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا۔سب نے اس پر اتفاق کیا کہ ہمارا امن ہم نے خود بحال کرنا ہے اور اپنا گھر ان وحشت کے سوداگروں سے خود بچانا ہے جن کے لیے ہماری زندگیوں، ہمارے پیارو، ہمارے گھر بھار کی حیثیت ایک ڈرون حملے، ایک کراس فائر کی زد میں آکر ”کولیٹرل ڈیمج“ کہلائے جانے جتنی ہے۔