
پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مائنز اینڈ منرلز بل کو صوبوں کے وسائل پر قبضے کی کوشش قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل صوبائی خودمختاری اور آئین کے خلاف ہے، اور اگر حکومت اس پر نظرثانی نہیں کرتی تو عوام کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے میدان میں آنا پڑے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ وفاق کو چاہیے کہ وہ آئین کی بالادستی کو مدنظر رکھے اور ایسے قوانین نہ بنائے جو صوبوں کے حقوق کو مجروح کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم میں کوئی تبدیلی قابل قبول نہیں ہوگی، اور صوبوں کے اختیارات پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ نہ تو بین الاقوامی طاقتوں کو اور نہ ہی وفاقی حکومت کو صوبوں کے وسائل پر کنٹرول دیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے فاٹا کے انضمام پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ عجلت میں لیا گیا تھا، جس کے پیچھے بیرونی دباؤ تھا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، جس کی کوئی قانونی یا اخلاقی توجیہہ نہیں بنتی۔
افغان مہاجرین کے جبری انخلا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیرمنصفانہ اور جذباتی فیصلہ ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہیں، اور انہیں واپس بھیجنے کا کوئی منظم طریقہ کار ہونا چاہیے۔
خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی عدم تحفظ کی صورتحال پر بھی انہوں نے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے سیاسی کارکنان اور علماء کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آخر میں، مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا کہ 27 اپریل کو مینار پاکستان پر "اسرائیل مردہ باد" ملین مارچ منعقد ہوگا، جبکہ 11 مئی کو پشاور میں ایک اور بڑا احتجاجی مارچ نکالا جائے گا، جس میں صوبے بھر سے عوام بڑی تعداد میں شرکت کریں گے۔