battery low
Chief Minister (5k+ posts)
ہم ب بکریوں کی جنگل میں اہمیت ہی کیا ہے، بکری کی بیں بیں کون سنتا ہے ؟ بالآخر وہی ہوا جسکی توقع کی جا رہی تھی ۔چیتے کے بیانیے کا کوئی سیاسی توڑ نہیں ہو رہاتھا، سیاست کا چھوٹا شیر معاشی بہتری ہی کو بیانیہ قرار دیتے ہوئے اسی کے زور پر چیتے کو بے اثر کرنا چاہتا تھا لیکن بکریاں گو ڈری اور سہمی رہتی ہیں مگر ان کو صاف لگ رہا تھا کہ سیاسی بیانیے کی کمزوری، چھوٹے شیر کی سیاسی گرفت کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے اور یہ خلا چھوٹے شیر کی حکومت اور حیثیت کیلئےخطرناک ہے پھر بالآخر ببر شیر ایک طاقتور بیانیے کےساتھ چیتے اور ہر بادِ مخالف کےسامنے آ کرکھڑا ہوگیا ۔
ببر شیر ہی چھوٹے شیر کا سہارا اور مضبوط ترین بازو ہے لیکن ببر شیر کی توجہ صرف خاکی کچھار پر ہی ہے ،کھلے عام جنگل میں کم ہی دکھائی دیتا ہے نہ بکریوں سے ملتا ہے نہ بیان بازی اور ملنے ملانے پر یقین رکھتا ہے تعلقات عامہ اور سیاسی ڈائیلاگ سے بھی اسے پرہیز ہے مگر اسلام آباد کے اوورسیز کنونشن میں ببر شیر کی تقریر جوشیلی، جذباتی اور حب الوطنی سے بھرپور تھی، عزم اور ارادہ انگ انگ سے ٹپک رہا تھا نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا بلکہ معاشی اعدادوشمار اور پھر مستقبل کے معاشی اہداف یعنی جی 20اور جی 10میں پاکستان کی شرکت اور معدنی وسائل کی کھوج سے 3سا ل کے اندر 125ارب ڈالر کے قرضے اتارنے کا وعدہ کرکے ایک نئی امید پیدا کر دی ۔ویسے تو پہلے بھی اس ملک میں دو ہی فریق تھے ایک چیتا اور دوسرا ببر شیر۔چھوٹا شیر اور پیپلئے ہاتھی سب ببر شیر کے پیچھے ہی چھپے ہوئے ہیں گویا اب اصلی فریق ببر شیر پوری طاقت سے چیتے کے سامنے آ گیا ہے اپنے بیانیے کے ساتھ، جوش اور جذبے کے ساتھ ،جنگ اب اصلی فریقوں کے درمیان ہے۔ اتحادی چیتے کے ہوں یا ببر شیر کے وہ آہستہ آہستہ غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں ماسوائے اس کے کہ شیر اور پپلیئےہاتھی سیاسی بیانیے اور کارکردگی میں کچھ خاص کر دکھائیں۔
ماضی کی تاریخ ہی مستقبل کوسمجھنے میں مدد کرتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگایا تو قومی اتحاد سے مدد مانگی، بھٹو کی پھانسی تک یعنی صرف 2سال تک قومی اتحاد کے ناز نخرے برداشت کئے، انہیں کابینہ میں شامل کیا مگر بھٹو کو پھانسی دیکر جنرل ضیاء کو قومی اتحاد کی سیاسی حمایت کی ضرورت نہ رہی کیونکہ جنرل ضیاء الحق خود بھٹو مخالفوں اور پیپلز پارٹی کے دشمنوں کا محبوب لیڈر بن چکا تھا۔ اسی طرح جنرل مشرف نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کو غیر متعلق کرکے اپنی پارٹی مسلم لیگ ق کھڑی کی۔ مگر اس زمانے میں بھی سیاست اور طاقت کا اصل مرکز جنرل مشرف خود تھے یعنی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خلاف جو بیانیہ آج بھی موجود ہے اس بیانیے کے پہلے لیڈر جنرل مشرف خود تھے بعدازاں اسی بیانیے کو چیتے اور اس کےحامی خاکی شیروں نے اپنا لیا۔ب بکریوں میں عرصہ دراز سے یہ سرگوشی جاری تھی کہ بالآخر سیاست اصل فریقوں کی طرف لوٹے گی، چیتے کی سیاست اور اسکی غلطیوں کے توڑ کا اصل کریڈٹ بہرحال ببر شیر کو جاتا ہے اور بالآخر اس ’’کارنامے‘‘ پر کامیابی کے ہار بھی اسے ہی پڑیں گے چھوٹے شیر یا پپلیئےہاتھی کو نہیں ۔
ببر شیر دھاڑا تو دہشت گردریچھوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی اور سیاسی بونے لرز گئے۔ دوسری طرف چیتے کی ضد اور انا کی مخالف بکریاں چڑیاں اور طوطے چہچہانے لگے۔ شرارتی بندر اور چالاک لومڑ کہاں چپ بیٹھنے والے تھے وہ بھی میدان میں آگئے، چھوٹے شیر کو مایوس چھچھوندر نے کہا کہ آپ کا قد کم ہوگیا ہے۔ لومڑ نے ببر شیر اور چھوٹے شیر کو لڑانے کی کوشش شروع کردی اگر واقعی لڑائی ہوگئی تو پھر چیتے کی راہ ہموار ہو جائے گی، بندر نے ڈھول بجانا شروع کیا کہ آئینی بندوبست نہیں اب مارشل لااور فوج آکر ملک سنبھالے گی حالانکہ ببر شیر نے واضح کیا کہ ہارڈ سٹیٹ کا مطلب آئینی بندوبست کے تحت تمام اداروں کی بہترین کارکردگی ہے۔ بندروں، لومڑوں اور چھچھوندروںکی چاندی تب ہوتی ہے جب لڑائی ہو جائے آمریت چھا جائے، بکریاں ڈرتی ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے ۔ ماضی میں جب جب ایسا ہوا جنگل ویران ہوا، اناج اور سرمائے دونوں کو نقصان پہنچا ملک انارکی کی طرف گیا۔
چلتے چلتے بیانیے کی اونر شپ اور تقدیر کے اتار چڑھاؤ کی مثال کے طور پر ایک واقعہ سنا دوں۔ جنرل ضیا کا طیارہ پھٹ گیا تو لاہور کےمینار پاکستان پر ان کی غائبانہ نماز جنازہ کا اعلان ہوا۔ روزنامہ جنگ کے نیوز روم کے 15،20 صحافیوں نے اطہر مسعود صاحب کی سربراہی میں فیصلہ کیا کہ آج ایک غیر رسمی سروے کیا جائے مقصد یہ تھا کہ آج جنرل ضیاء کے کٹرحامیوں سے پوچھا جائے کہ ضیاء الحق کا سیاسی جانشین نواز شریف ہوگا یا نہیں۔ سروے کا دلچسپ نتیجہ یہ نکلا کہ نماز جنازہ پڑھنے والوں میں سے 90فیصد نے نواز شریف کو ضیاء الحق کا سیاسی جانشین نہ مانا۔ شاید اس کی وجہ انکے خیال میں یہ تھی کہ نواز شریف پیپلز پارٹی اور بھٹو کی مخالفت میں ضیاءا لحق جیسی کارکردگی کا حامل نہیں۔ نوازشریف کے امیج میکرز نے اس کمزوری کو جان لیا اور 1988ء کے الیکشن سے پہلے اس طرح کی خبریں شائع کروائی گئیں۔ ’’الذوالفقار کے نشانے پر پہلا سیاستدان نواز شریف ہے‘‘ ’’نواز شریف اپنے دونوں بیٹوں کوفوجی بنائیں گے‘‘ ’’نواز شریف میڈ ان پاکستان ہے اور بے نظیر بھٹو ڈارلنگ آف دی ویسٹ ہیں‘‘۔ ایسی خبروں کی مسلسل اشاعت نے رائے عامہ پر زبردست اثر ڈالا اور بجائے ضیاءالحق کے بیٹے اعجاز الحق کے بھٹو مخالفوں کے لیڈر نواز شریف بن گئے اور پھر کئی سال تک وہ اسی بیانیے پر قائم رہے اور پیپلز پارٹی کے مخالف ووٹ بینک پر فتح یاب ہوتے رہے تاآنکہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد ان کابیانیہ اور سوچ یکسر تبدیل ہوگئی۔ اس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیانیہ بھی بدل سکتا ہے اور بیانیے کی اونر شپ بھی۔ شرط صرف کوشش ہے۔
ب بکری کی بیں بیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ یہ ملک اور یہ تصوراتی جنگل مزید لڑائیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ببر شیر کوشیروں اور ہاتھیوں کوساتھ رکھنا ہے اور دوسری طرف چیتے اور اسکے ساتھیوں کیلئےبھی بہتر راستہ یہی ہےکہ سڑکوں کو گرم کرنے کے بجائے جمہوری ایوانوں کو گرم کریں۔ راستہ انہی ایوانوں سے ہی نکلے گا۔ صدیوں کی تاریخ کا سبق یہی ہے کہ مصالحت ہی واحد اور بہترین راستہ ہے۔
Source
Last edited by a moderator: