اسلام آباد ہائیکورٹ میں احمد نورانی کے لاپتہ بھائیوں کے کیس کی سماعت کے دوران اہم انکشاف سامنے آیا ہے۔
آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ احمد نورانی کے دونوں بھائیوں کے موبائل نمبر 22 اور 23 مارچ کو اچانک جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور کے علاقے اوچ شریف میں آن ہوئے، جبکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد وہ نمبر مسلسل بند رہے۔
وکیل ایمان مزاری نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ جب حساس ادارے کسی کو حراست میں لیتے ہیں تو اکثر ایسا ہی پیٹرن دیکھا گیا ہے کہ لاپتہ افراد کے موبائل فونز کو مخصوص وقت کے لیے آن کیا جاتا ہے تاکہ بعد میں یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ خود کسی سے رابطے میں تھے۔
اسی معاملے پر سیاسی کارکن اظہر مشوانی نے سوشل میڈیا پر ردعمل دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہیں بھی ایسے ہی تجربے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کے دو بھائیوں کو بھی مبینہ طور پر حساس اداروں نے اغوا کیا تھا۔ دورانِ حراست ان کے بھائیوں کے نمبرز سے اظہر مشوانی کو واٹس ایپ پر دھمکی آمیز کالز کی گئیں اور گن پوائنٹ پر ان کے بھائیوں سے بات بھی کروائی گئی۔
https://twitter.com/x/status/1909173144167838128
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے، اس سے پہلے عمران خان کی حکومت کے دوران بھی ایک معروف شخصیت کے اغوا کیس میں یہی حکمتِ عملی اختیار کی گئی تھی۔ جب کیس عدالت پہنچا تو اغوا ہونے والے شخص کو عدالت میں پیش کیا گیا، جس نے دعویٰ کیا کہ وہ شمالی علاقہ جات کی سیر کے لیے گیا ہوا تھا اور کسی نے اسے اغوا نہیں کیا۔
احمد نورانی کی بہن بھی چند ہفتے قبل اس حوالے سے میڈیا پر بات کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائیوں کے نمبروں سے اہل خانہ اور دوستوں کو مختصر کالز کی گئیں، جن میں دوسری جانب کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ ان کے مطابق اس کا مقصد صرف یہ تاثر دینا تھا کہ وہ لوگ خود رابطے میں ہیں، تاکہ پولیس بعد میں انہیں لاپتہ تسلیم نہ کرے۔
https://twitter.com/x/status/1904159130262339886