اس سال ہم نے مل کر آئین کو تہس نہس کیا ہے،سلمان اکرم راجہ

salam1h1h1h1.jpg

اس سال ہم نے مل کر آئین کو تہس نہس کیا ہے،سلمان اکرم راجہ۔۔انتخابات عوام کا بنیادی ہے حق نہ کہ کسی سیاسی جماعت کا جس سے انہیں محروم رکھا گیا: سینئر ایڈووکیٹ

سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سلمان اکرم راجہ نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں انتخابات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں نے دیدہ ودانستہ آئین پاکستان سے انحراف کیا۔ بہت سی تاوییلیں پیش کی گئیں کہ جب پارلیمنٹ نے طے کر لیا ہے تو الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے پیسے جاری نہیں کرنے، صوبائی وقومی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی دن کروانے کی تاویل بھی پیش کی گئی کہ ایسا نہ کیا گیا تو شک وشبہ پیدا ہو گا چاہے آئین میں کچھ بھی لکھا ہو۔
https://twitter.com/x/status/1696570643410546763
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے معاملے کو کسی عدالت میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ آئین میں لکھا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دنوں میں انتخابات ہونے چاہئیں۔ آئین پاکستان کے مطابق یہ بالکل سادہ اور واضح معاملہ تھا لیکن پاکستان کی 66 فیصد عوام کو جمہوری حکومت سے محروم رکھا گیا۔ انتخابات کروا کر رائے شماری کا موقع دینا عوام کا بنیادی ہے حق نہ کہ کسی سیاسی جماعت کا۔

انہوں نے کہا کہ کچھ افراد احتجاج کرتے رہے جبکہ سیاسی رہنما اور بڑے بڑے تھنک ٹینک اس کھیل میں مشغول ہو گئے اور جمہوریت کے داعی بھی یہ کہنے لگے کہ چونکہ پارلیمنٹ نے فیصلہ کر لیا ہے اس لیے آئین جو کہتا ہے کہتا رہے۔ ہم سب نے مل کر آئین کو تہس نہیں کیا ہے، 2023ء پاکستان کی آئینی تاریخ کا بدترین سال ہے۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ مارشل لاء میں سب کو پتا ہوتا تھا کہ اس میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے مثال نہیں بنایا جا سکتا لیکن اس سال ہم نے پارلیمنٹ کو آئینی پامالی کا ذریعہ بنا لیا ، یہ سب سے بڑا آئینی جرم ہے۔ پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ ہم آئین پر عمل نہیں ہونے دیں گے اور ایسا ہی ہوا، دوسری طرف الیکشن کمیشن کا رویہ بھی درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری مئی سے موجود تھا جسے جان بوجھ کر اگست میں منظور کیا گیا، 2 غیرمنتخب وزرائے اعلیٰ کا اختیار ہی نہیں کہ وہ اس مردم شماری کی منظوری دیتے۔ میرے خیال میں نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہی نہیں تھی اس کا مقصد صرف 90 دنوں میں الیکشن نہ ہونے دینا تھا۔ انتخابات کے التوا کا اب بھی کوئی جواز نہیں ہے، ہمیں اپنی آواز بلند کرنی چاہیے اور احتجاج کرنا چاہیے۔
 

Back
Top