اقوام متحدہ کی کمیٹی کی عام شہریوں کے فوجی ٹرائل کی مخالفت

News_Icon

Chief Minister (5k+ posts)
court-hammer.jpg


اسلام آباد: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر ایسے قوانین پر نظرثانی کرے جو فوجی عدالتوں کو شہریوں پر مقدمات چلانے کا اختیار دیتے ہیں۔ کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ فوجی عدالتوں کو شہریوں پر مقدمات چلانے کا اختیار ختم کیا جائے، ان کے ذریعے سزائے موت کے نفاذ کا سلسلہ روکا جائے اور ان کی کارروائیوں کو بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کے تحت منصفانہ ٹرائل کے حق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

جنیوا میں جاری حالیہ اجلاس میں پاکستان کے کیس کا جائزہ لیتے ہوئے کمیٹی نے پاکستان سے درخواست کی کہ وہ ان تمام شہریوں کو ضمانت پر رہا کرے جنہیں فوجی عدالتوں کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔ کمیٹی نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور بتایا کہ 2015 سے 2019 تک کے بیشتر مقدمات میں سزائے موت کی شرح زیادہ رہی۔

عدلیہ کی آزادی اور شفافیت پر تحفظات

عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے، اقوام متحدہ کی کمیٹی نے پاکستان کی جانب سے دی جانے والی معلومات کو تسلیم کیا، لیکن ساتھ ہی اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ عدالتی امور میں وسیع مشاورت کا فقدان رہا ہے، جس میں ججز، وکلا، اور سول سوسائٹی کے دیگر اراکین کی شمولیت شامل نہیں کی گئی۔

کمیٹی نے پراسیکیوشن کے ادارے کے قانونی ڈھانچے اور ان کے تقرر و ترقی کے نظام میں شفافیت کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا اور اس پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیا۔

سیاسی مقدمات میں ججز اور پراسیکیوشن کے عملے کو ہراساں کرنے پر تشویش

کمیٹی نے اس بات پر بھی تحفظات ظاہر کیے کہ سیاسی مقدمات اور دہشت گردی کے مقدمات میں شامل ججز اور پراسیکیوٹرز کو دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے عدالتی عمل متاثر ہوتا ہے۔

پرائیویسی کے حق میں خلاف ورزیوں اور ڈیٹا پروٹیکشن قوانین کی ضرورت

کمیٹی نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے ذریعے ذاتی ڈیٹا تک رسائی اور اسے شیئر کرنے کے غیر ضروری اختیارات دینے پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈیٹا پروٹیکشن قانون بنائے، جو ذاتی معلومات کے تحفظ اور شفافیت کو یقینی بنائے۔

جبری گمشدگیوں اور صحافیوں کے تحفظ کے مسائل

کمیٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جبری گمشدگیوں کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کرے اور اس عمل کو روکنے کے لیے مناسب قانون سازی کرے۔ اس کے علاوہ، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جبری گمشدگی، تشدد، اور ہراسانی کے بڑھتے واقعات پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا۔

کمیٹی نے زور دیا کہ حکومت ان مسائل کے حل کے لیے شفاف تحقیقات کرے، مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے اور متاثرین کو معاوضہ فراہم کرے۔

حکومتی اقدامات کی ستائش

کمیٹی نے پاکستان کے بعض قانونی اقدامات کو بھی سراہا، جن میں نیشنل جینڈر پالیسی فریم ورک 2022، خیبر پختونخوا میں خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف قانون 2021، اور افغان مہاجرین کے کارڈز کی مدت میں توسیع شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں ایک طرف حکومت پاکستان کو مختلف چیلنجز پر قابو پانے کے مشورے دیے گئے ہیں، تو دوسری طرف کچھ مثبت اقدامات کی بھی تعریف کی گئی ہے۔
 
Last edited:

Back
Top