
ایران کے جنوبی شہر بندر عباس میں بندرگاہ کے علاقے میں ہونے والے زوردار دھماکوں اور آگ کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوگئے۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دھماکے بندر عباس بندرگاہ پر ذخیرہ شدہ کنٹینرز کے پھٹنے کی وجہ سے ہوئے، جس کے بعد مقامی علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
ہرموزگان کے کرائسز مینجمنٹ چیف، مہرداد حسن زادہ نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ دھماکے بندر عباس کے سینا کنٹینر یارڈ میں ہوئے، جہاں بڑی تعداد میں ذخیرہ شدہ خطرناک مواد موجود تھا۔ زخمیوں کو طبی مراکز میں منتقل کیا جا رہا ہے اور سیکیورٹی حکام نے فوری طور پر جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔
ایران کی کسٹم اتھارٹی نے ایک بیان میں کہا کہ ہفتے کے روز ہونے والا دھماکا شاہد راجی بندرگاہ کے قریب واقع سینا کنٹینر یارڈ میں ہوا تھا، جو ایران کی پورٹس اینڈ میری ٹائم آرگنائزیشن سے وابستہ ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکے میں 281 افراد زخمی ہوئے ہیں اور مقامی میڈیا میں اس کے بعد بندر عباس کی بندرگاہ سے دھوئیں کے گہرے بادل اور آگ کے گولے اٹھتے ہوئے دکھائی دیے۔
ایران کی نیشنل ایرانین آئل ریفائننگ اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی (این آئی او آر ڈی سی) نے بیان میں کہا کہ دھماکے کا ایندھن ذخیرہ کرنے والے ٹینکوں یا تیل کی پائپ لائنوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بندر عباس کی تنصیبات میں معمول کے آپریشنز جاری ہیں اور بندرگاہ کی انتظامیہ نے ہنگامی ٹیموں کی مدد سے فوری طور پر آگ پر قابو پایا۔
دھماکے کے بعد بندر عباس بندرگاہ پر تمام ایکسپورٹ اور ٹرانزٹ شپمنٹس کو معطل کر دیا گیا ہے، اور کسٹم حکام نے تمام دفاتر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس وقت تک کسی بھی برآمدی یا ٹرانزٹ شپمنٹ کی ترسیل روک دیں جب تک نئے حکم نہیں آتے۔ تاہم، جو ٹرک پہلے ہی کسٹم کی رسمی کارروائی مکمل کر چکے تھے، انہیں بندرگاہ سے روانہ ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔
ایرانی حکام نے دھماکے کی وجوہات کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، لیکن ابھی تک اس کی اصل وجہ کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ صوبہ ہرمزگان کے گورنر، محمد عاشوری نے کہا کہ مختلف حالات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس کی وجوہات کے بارے میں جلد اعلان کیا جائے گا۔
ایران کے پہلے نائب صدر محمد رضا عریف نے فوری تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے صوبائی گورنر اور ہلال احمر کے سربراہ سے بات کی، جبکہ وزیر داخلہ اسکندر مومنی نے بھی خصوصی تحقیقات کے احکامات جاری کیے۔
یہ واقعہ ایران کے اہم تجارتی اور ترسیلی مرکز پر ہوا ہے، جس سے علاقے کی سیکیورٹی اور اقتصادی سرگرمیوں پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ دھماکے کی مزید تفصیلات کی تصدیق کے بعد ہی اصل وجوہات سامنے آ سکیں گی۔