ایک سیاست کئی کہانیاں

Absent Mind

MPA (400+ posts)
جب ہم یعنی عوام اپنے منتخب کیے نمائندوں، سیاستدانوں سے رابطے کی کوشش کرتے ہیں تو عام طور پر اخبارات میں ہمارے راہنماوں کے آئے ہوے بیانات ریڈیو ,ٹیلی ویزن پر انکے خطابات ہمارے لئےسب سے قریب ترین اور معتبر زریعہ ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں صداقت ہو یا نہ ہو۔ بھر طور ہم ان بیانات پر یقین کر ہی لیتے ہیں۔اور جب کبھی ہمیں کسی معاملے میں اپنے سیاستدانوں کے اندازو اطوار کا علم ہوتاہے تب بھی ہم کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے ایا کہ کون غلط ہے اور کون صحیح۔ اور چاروناچار ہم رودھو کر خودکو کوس کر خاموش ہوجاتےہیں کہ یہ سب ہماراہی کیا دھرا ہے۔

کچھ دن سے روف کلاسرا کی ایک کتاب ہاتھ لگی ہوئی ہے۔ جس کا ٹائتل ہی ہمیں یہ باور کروانے کو کافی ہے کہ ہم جو اخبارات و رسائل کے زرئھے اپنے سیاستدانوں کا جاننے کا دعوی کرتے ہیں وہ کس قدر کھوکھلا اور بے معنی ہے۔ عوام اپنے سیاستدانوں اور جھوتے راہنماوں کے پیچھے جان تک مار دیتے ہیں۔۔۔ویسے انکی لکھی ہوئی کتاب میں موجود جتنے بھی سیاستدانوں کا زکر ہے وہ غٍالبا ڈان نیوز 2008 میں چھپ چکے ہیں۔ مگر یاد دہانی کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ روف کلاسرا صاحب نے چوہدری شجاعت حسین سے بھی انترویو کیا۔

بہت سے واقعات ہیں جو ایک ہی معاملے میں بہت سی کہانیاں سناتے ہیں تبھی صاحبِ کتا ب نے نام بھی ایک سیاست کئی کہانیاں رکھا۔ جو کہ سو فیسد درست معلوم ہوتاہے۔ چوہدری شجاعت کی بات ہورہی تھی۔

شجاعت حسین کہتے ہیں کہ 1997 میں اقتدار میں آنے کے بعد نوز شریف بہت تبدیل ہوچکے تھے۔ اور بھاری مینڈیٹ نے انکی شخصیت پر بہت زیادہ منفی اثر کیا اور شجاعت حسین نے نواز شریف کو خوشامد تکبر وغیرہ سے دور رہنے کا بھی مشورہ دیا۔ آگے کلاسرا صاحب لکھتے ہیں کہ شجاعت حسین نے بتایا کہ نومبر 1998میں نوازشریف کی سربراہی میں ایک میٹنگ میں شمولیت کے بعد چوہدری پروز الہی کو بتایا کہ نواز شریف کی ھکومت زیادہ دیر نہیں چلنے والی۔شجاعت حسین کہتے ہیں کہ اس میٹنگ میں موجود تمام لوگوں سے جن میں انٹیلی جنس کے سربراہان بھی موجود تھے سے قران پر حلف لیاگیا کہ اس میٹنگ کے بارے وہ کسی کو نہیں بتائیں گے اور اس میٹنگ میں بہت سے خوفناک قسم کے فیصلے کے گئے۔ ان فیصلوں کے فورا بعد پجناب اور کراچی میں ماورائے عدالت قتل ہونا شروع ہوگئے۔ یہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں تھا۔اب سی واقعے کو روف صاحب نے ایک اور حکومتی اہلکار سے سننے کی کوشش کی تو انھوں نے کیا کہا۔

شاہد حامد ۔۔پنجاب کے سابق گورنر اور فاروق لغاری کے انتہائی قریبی ساتھی اور لیگل ایدوائزر رہ چکے ہیں۔ اسی واقعے کو جب کلاسرا صاحب نے شاہد ھامد ساھب سے پوچھا جو کہ اس وقت کے گورنر بھی تھے اور شہباز شریف وزیر اعلی تھے۔
ایک ایساواقعہ جسے شجاعت حسین بڑھ چڑھ کر پیش کر رہے تھے اسی واقعے کو شاہد حامد ساحب نے ایک عام روٹین گردانا اور نوازشیرف کی پالیس کو ڈیفینڈ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ دنیا کے تمام مہذب ملکوں میں ایسے اقدامات ہوتے رہتے ہیں 1962 میں فرانس میں ایک تنظیم Raid بنائی گئی جس کا کام اسی طرح کے دہشت گردوں کو ختم کرنا تھا۔ یہی کام کینڈا میں بھی ہوا۔اس طرز پر 11/9کے بعد امریکی حکومت کام کر رہی تھی۔

اپ غور کیجیے ایک ایسا اقدام جسکے بعد شجاعت حسین نواز شریف کی حکومت کے ختم ہونے سے تشیہ دے رہے تھے کہ اس کے بعد نواز حکومت ختم ہو جائے گی کو ایک دوسرا شخص بالکل عام کہہ کر گزررہا ہے۔

کس کی بات پر یقین کیا جائے؟؟؟ دوسرا واقعہ جو ساری دنیا میں مشہور ہوا۔

شجاعت حسین کہتے ہیں کہ نواز شریف نے ساری دنیا کے سامنے کارگل کے واقعے کو لیکر کہا کہ انکی حکومت کو کارگل واقعے کا قطعی علم نہیں تھا، وہ جھوٹ بول رہے تھے ان کو سب پتہ تھا۔ ایک دفعہ ایک بریگیڈئر کارگل پر بریفنگ دے رہے تھے۔ جو کہ نوازشریف کو بالکل سمجھ نہیں ارہی تھی۔ کہ جنرل پرویز اٹھے اور اسٹ سےکارگل آپریشن کی تفصیلات بتانی شروع کیں

تو نوازشریف نے اونچی اوازمیں کہا جنرل تم نے تو یہ باتیں مجھے کبھی بتائیں ہی نہیں۔ اس پر جنرل مشرف رک گئے اور جیب سے ایک ڈایری نکالی اور اس پر سے تمام میٹنگنز کی تاریخ بتانی شروع کیں جب جب نواز شریف کو کارگل بارے بریفنگ دی گھی۔ نواز شریف کا خیال تھا کہ ان کے وزیر مشیر اس بات پر انکا ساتھ دیں گے۔ مگر وہاں موجود سرتاج عزیز اور شجاعت وزیر داخلہ دونوں جانب بیٹھے تھے ۔۔چپ رہے۔

اب یہی واقعہ نواز شریف کی زبانی سُنیے

انھوں نے کہا کہ مجھے یہ بتایاگیاتھا کہ کارگل پر صورتحال اتنی بگڑگئی ہے کہ اگر فوری کوئی اقدام نہ کیا گیا تو وہاں کے علاقے ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اور یہ کہ اب تک تین ہزار سے ذائد ہمارے فوجی جوان انڈین آرمی کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کو یہ سب اس وقت کے ایرچیف نیول چیف کے سامنے گورنرہاوس میں بریف کیاگیا۔اور یہ سب بتانے والے پرویز مشرف تھے۔ یہ سب جاننے کے بعد انھوں نے ملک پاکستان کی عزت بچانے کا فیصلہ کیا ۔ گورنر ہاوس میں وہ اس خوفناک بریفنگ سن کر نواز شریف نے سوچا کہ اگر بھارتی فوجیوں کو نہ روکا گیا توپاکستانی آرمی کی عزت پر ایسا دھبہ لگے گا کہ آنے والے سالوں میں وہ اسے اتنی آسانی سے نہیں دھو سکیں گے۔اس وقت کے وزیراعلی پنجاب شہبازشریف نے نوازشریف کو امریکہ جانے سے روکا کہ فوج کو اپنے کئے کی سزابھگتنے دی جائے اور فوج کو انڈین آرمی کا سامنا کرنے دیاجائے. کیوں کہ کارگل کی پہاڑیوں پر یہ ایڈونچر سیاسی حکومت کے کہنے پر شروع نہیں کیاگیا تھا.مگر نوازشریف کا کہنا تھا کہ مسئلہ آرمی کا نہیں جنہوں نے ان کے علم میں لائے بغیر کارگل کہ پہاڑیوں پر یہ کھیل کھیلا مسئلہ ملک کی عزت بچانے کا تھا۔ اور جنرل پرویزمشرف انکو ائرپورٹ پر الوداع کرنے بھی آئے۔
یہ دو چھوٹی سی مثالیں ہیں۔ معلوم نہیں کون سچا ہے اور کون جھوٹا مگر ایک بات ماننی پڑے گی۔ دونوں صورتوں میں یہ لوگ ہماری نظروں میں سچے ہی ہوئے ہیں۔ ایک ہی وقت میں جھوٹے ہونے کے باوجود یہ ہمارے ہیروز ہیں۔ ہمارے پاس آپشن کوئی نہیں اور یہ ہمیں کوئی اور آپشن دینے پر تیار نہیں۔