بلوچستان کی کثیر الجماعتی کانفرنس:این ایس سی کی پالیسیاں مسترد

screenshot_1744726714404.png


بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم) کی قیادت میں لکپاس میں منعقدہ کثیر الجماعتی کانفرنس نے قومی سلامتی کونسل کی حالیہ سخت گیر پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے تمام سیاسی قیدیوں بالخصوص خواتین کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
سردار اختر مینگل کی صدارت میں ہونے والی اس طویل کانفرنس میں 9 قراردادیں منظور کی گئیں جن میں بلوچستان کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے آئینی راستہ اپنانے پر زور دیا گیا۔ کانفرنس کے شرکاء نے 1948 میں بلوچستان کے الحاق کی دستاویز میں شامل آئینی تحفظات پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا اور واضح کیا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل سخت گیر پالیسیوں سے نہیں بلکہ قومی سطح پر مذاکرات سے ممکن ہے۔

کانفرنس میں جمعیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑوں، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، پشتون تحفظ موومنٹ سمیت متعدد سیاسی و قبائلی رہنماؤں نے شرکت کی۔ شرکاء نے ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں پر شدید تنقید کی اور جمہوری تحریکوں کو دبانے کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ موجودہ ریاستی رویہ صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔
کانفرنس میں بی این پی اور بی وائی سی کے کارکنوں کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کی گئی، وڈھ میں پرامن احتجاج کے دوران کارکن عنایت اللہ لہری کے قتل کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا، اور عمران خان، علی وزیر، ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

شرکاء نے بلوچستان میں فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیوں اور غیرقانونی گرفتاریوں کے خاتمے، مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025 کی منسوخی، ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کے 50 فیصد حصے کے حق کے تسلیم کیے جانے، اور سرحدی علاقوں و شاہراہوں پر قائم استحصالی چیک پوسٹوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
کانفرنس میں بلوچستان کے کسانوں، تاجروں اور کاروباریوں کو پہنچنے والے اربوں روپے کے نقصانات کی تلافی کا مطالبہ بھی کیا گیا، جبکہ شرکاء نے زور دیا کہ صوبے کے وسائل پر مقامی آبادی کا حق تسلیم کیا جائے اور وفاقی استحصالی پالیسیوں کا خاتمہ ہو۔
سردار اختر مینگل، مولانا عبدالغفور حیدری، اصغر خان اچکزئی اور دیگر رہنماؤں نے اپنے خطابات میں واضح کیا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صرف آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی مذاکرات سے ممکن ہے اور حکومت کو تنازعات کو مزید بڑھانے والی پالیسیوں سے باز آنا چاہیے۔
 

Back
Top