
بنگلادیشی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، محکمہ پاسپورٹ نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور دیگر 74 افراد کے پاسپورٹ منسوخ کیے ہیں، جبکہ جبری گمشدگیوں میں مبینہ طور پر ملوث 22 افراد کے پاسپورٹ بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔ چیف ایڈوائزر کے پریس سیکریٹری شفیق العالم اور ڈپٹی پریس سیکریٹری ابوالکلام آزاد مجمدار نے فارن سروس اکیڈمی میں میڈیا بریفنگ کے دوران ان اعداد و شمار کی تصدیق کی، تاہم پریس ونگ نے منسوخ کیے گئے پاسپورٹ کے حامل افراد کے ناموں کا ذکر نہیں کیا۔
ڈپٹی پریس سیکریٹری آزاد مجمدار نے بتایا کہ بھارتی حکومت شیخ حسینہ کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کے اقدام سے آگاہ ہے اور اسی کے مطابق سفری دستاویزات جاری کی گئی ہیں۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ قانونی طور پر ایک سے زیادہ پاسپورٹ رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور منسوخ شدہ پاسپورٹ صرف سفارتی پاسپورٹ ہیں۔
بنگلہ دیش کی حکومت نے حالیہ مظاہروں کے دوران ملک میں ای پاسپورٹ متعارف کرانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم بنگلہ دیشی شہریوں کے لیے ای پاسپورٹ تیار ہونے پر جلد ہی ایس ایم ایس نوٹیفکیشن موصول ہوں گے۔ یہ اقدام اس عمل کو آسان بنانے اور تارکین وطن کو درپیش مشکلات کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
پس منظر
بنگلہ دیش میں طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا تھا۔ طلبہ تحریک کا آغاز جون میں ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد ہوا، جس میں عدالت نے سرکاری ملازمتوں سے متعلق کوٹہ سسٹم کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔ بنگلہ دیش میں 50 فیصد سے زائد سرکاری ملازمتیں کوٹہ سسٹم کے تحت دی جاتی تھیں، جس میں 30 فیصد کوٹہ 1971 میں بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں حصہ لینے والوں کی اولاد کے لیے مختص تھا۔احتجاج کے دوران پولیس نے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر 6 طلبہ کی ہلاکت ہوئی۔ یہ احتجاج پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہو گیا، اور حکومت نے ملک بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی، اور متعدد شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا۔ ان مظاہروں میں مجموعی طور پر 300 اموات ہوئیں۔
سول نافرمانی کی تحریک کے آغاز کے پہلے روز تقریباً 100 اموات ہوئی تھیں، جس کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد مستعفی ہو کر بھارت روانہ ہو گئی تھیں۔