بھارت کی جانب سے معطل کیا گیا"سندھ طاس معاہدہ" کیا ہے؟

screenshot_1745510684835.png



نئی دہلی: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور اٹاری بارڈر پر چیک پوسٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت نے پاکستان میں موجود تمام پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا بھی حکم دیا ہے۔


بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے بدھ کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے، جو ہر سال پاکستان کو 39 ارب کیوبک میٹر پانی فراہم کرنے کی بنیاد پر تھا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کے پانی کی تقسیم سے متعلق ہے۔


یاد رہے کہ دو دن قبل مقبوضہ کشمیر کے پہلگام علاقے میں ایک فائرنگ کے واقعے میں 26 سیاح ہلاک ہو گئے تھے، جن میں دو غیر ملکی بھی شامل تھے۔ بھارتی حکومت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور کہا تھا کہ اس کا واضح اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔


سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟


سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم اور ایک مستقل حل تلاش کرنا تھا کیونکہ برصغیر کی تقسیم کے بعد دریاؤں کا نظام مشترکہ تھا۔


اس معاہدے کے تحت بھارت کو 3 مشرقی دریاؤں یعنی بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملتا ہے، جب کہ مقبوضہ کشمیر کے مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو ملتا ہے۔


اگرچہ معاہدہ طے پایا تھا، لیکن بھارت نے مسلسل اس کی خلاف ورزیاں کی ہیں اور پاکستان کو پانی سے محروم رکھا ہے۔ بھارت کو ان دریاؤں کے پانی سے بجلی بنانے کا حق تو حاصل ہے، لیکن پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔


اس معاہدے کی ضرورت 1948 میں اس وقت پیش آئی جب بھارت نے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ عالمی برادری کی مداخلت کے بعد 19 ستمبر 1960 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔
 

Back
Top