کراچی: موجودہ مالی سال میں تین ممالک نے پاکستان کے ٹریژری بلز (T-Bills) سے تقریباً 1 ارب ڈالر نکال لیے ہیں، اور یہ انخلاء تقریباً اتنی ہی رقم کے برابر ہے جتنی سرمایہ کاری اندر آئی تھی۔
آمد اور اخراج میں اس برابری کی صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ سرمایہ کار محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، حالانکہ پاکستان کی جانب سے ان بلز پر نسبتاً زیادہ منافع دیا جا رہا ہے۔
حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی، مگر اس میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ اگرچہ پاکستان نے اپنے ٹریژری بلز پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ منافع پیش کیا، لیکن غیر ملکی سرمایہ کار اب بھی پاکستان کے کمزور بیرونی شعبے اور سالانہ 25 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے محتاط ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، یکم جولائی سے 14 مارچ تک کے عرصے میں ٹریژری بلز میں کل سرمایہ کاری 1.163 ارب ڈالر رہی، جبکہ اسی عرصے میں انخلاء 1.121 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، یوں خالص سرمایہ کاری صرف 42 ملین ڈالر رہ گئی۔
برطانیہ، جو روایتی طور پر پاکستان کے ٹریژری بلز میں سب سے بڑا سرمایہ کار رہا ہے، اس نے اپنے 710 ملین ڈالر میں سے 625 ملین ڈالر نکال لیے۔ متحدہ عرب امارات نے 205 ملین ڈالر اور امریکہ نے 130 ملین ڈالر واپس لے لیے۔
اگرچہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی ایک اور قسط کی منظوری اور ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافے کے بعد کچھ امید پیدا ہوئی ہے، لیکن خدشات اب بھی موجود ہیں۔ برآمدات سست روی کا شکار ہیں، اور زرمبادلہ کے ذخائر نو ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں۔