جماعت اسلامی 1971 میں فوج کا ساتھ دے کر غلط تھی -- اگر جماعت اسلامی جمہوری حکمرانی پر یقین رکھتی تھی تو انہیں مجیب الرحمان کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔
اور جماعت اسلامی آج پھر عمران خان کی مخالفت کر کے غلط کر رہی ہے۔
ذیل کا مضمون عبداللہ نے لکھا ہے، جن کے والد 30 سال سے جماعت اسلامی سے منسلک تھے۔
میرے محترم والدین بیرون ملک تقریباً 30 سال جماعت اسلامی سے وابستہ رہے اور دونوں بہت ہی
سرگرم اور جوشیلے کارکن تھے۔
درس و تدریس، مالی معاملات، انتظامات اور کمیونٹی ویلفیئر میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور اس طرح ہمارا خاندان ایک جماعتی خاندان کہلاتا تھا۔
گھر میں جماعت کا لٹریچر باقاعدگی سے آتا تھا اور وہ ایک طرح سے ہم بچوں کے لیے پڑھنا ضروری تھا۔
اگر جماعتی خاندان کمیونٹی ویلفئیر میں پیش پیش ہوں تو وہ اپنے بچوں کو بھی اس میں رضاکار بننے کی ترغیب دیتے ہیں اور یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔
میرے والد محترم مختلف لیبر کیمپ بھی جاتے، ان لوگوں کو دروس کے لیے لاتے اور ساتھ ہی ان افراد کے لیے مختلف قسم کے دوسرے ضروری بندوبست بھی کرتے رہتے تھے۔ وہ اکیلے نہیں تھے، انکے ساتھ انکے دوسرے جماعتی دوست بھی تھے جو ان کاموں میں پیش پیش تھے۔اس طرح ہم لڑکوں کا بھی ایک سرکل بن گیا۔
اس طرح ہم جماعتی لڑکوں کا بھی ایک سرکل بن گیا جو کہ سکول وغیرہ میں پہچانا جاتا تھا اور ہمیں ہر کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔
ہم سے ہر ایک کوئی نیک پارسا تھا بھی نہیں، سب نماز پڑھتے ہوں گے مگر کچھ چھپ کر سیگریٹ بھی پیتے تھے۔
یونیورسٹی تعلیم کے لیے جب پاکستان آ گیا تو مجھے بہت زیادہ alienation محسوس ہونا شروع ہو گئی اور مجھے ایسا لگا کہ پاکستان کی سیاست اتنی سیدھی نہیں جتنی ہمیں باور کرائی گئی اور نہ ہی یہاں کے ایسے حالات ہیں۔
میری نظر میں پاکستانی overall ایک grey region میں تھے۔
عرب ممالک اور گوروں کی طرح black & white کا کوئی تصور نہیں تھا۔ کوئی قانون نہیں، حق کو کوئی حق نہیں کہتا تھا اور ہر شخص ادھر بس کام چلانے کے چکر میں رہتا ہے
مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ جو میں نے لیٹریچر میں پڑھا، وہ اتنا قابل عمل نہیں جتنا بتایا جاتا ہے
کچھ عرصہ مزید گزرا اور والدین ہمیشہ کے لیے پاکستان آ گئے۔
جب میرے والد صاحب آئے تو وہ عمران خان پر شدید تنقید کرتے تھے۔ یہ تنقید انتہائی aggressive تھی اور اس میں اسکی زاتی زندگی کا عنصر بھی شامل تھا۔ یہاں تک کہ وہ اس بات پر بھی قائل تھے کہ وہ کوکین کا نشہ کرتا ہے عمران خان کو بیرون ملک طاقتوں نے پلانٹ کیا ہے اور یہ پاکستان کو شام یا لیبیا بنانے کے لیے آیا ہے
اس طرح کبھی طلعت حسین کا کوئی کالم شئیر کریں یا کبھی سلیم صافی کا۔ تنقید سب پر کرتے تھے مگر عمران خان پر بھی خوب ہوتی تھی۔
تاہم پانچ سال گزر گئے اور انکے نظریات میں بہت تبدیلی آنے لگ گئی۔ یہی چیز والدہ محترمہ کے ساتھ بھی ہوئی۔
بنیادی وجوہات پاکستان کی وہ روزمرہ زندگی اور اصول مملکت تھے جس کا موازنہ وہ باہر کے ممالک سے کرتے تھے
مگر ایک بہت ہی اہم وجہ یہ تھی کہ وہ جماعت اسلامی کے لٹریچر کو پہلے کی طرح باقاعدگی سے نہیں پڑھتے تھے۔ دین سے وابستگی پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی تھی اور دینی رجحان ریٹائرمنٹ کے بعد مزید بڑھ گیا، مگر ساتھ ہی دینی جماعتوں سے دوری ہونا شروع ہو گئی۔
2018 میں دونوں نے ووٹ عمران خان کو دیا اور والدہ تو ماموں، ممانی اور بھانجوں کے ساتھ لبرٹی چوک بھی جاتی رہیں۔
انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ملک کا نظام تبدیل ہونا ضروری ہے اور اسکا #حلصرفجماعت_اسلامی نہیں۔ یہ بھی اندازہ تھا کہ سیاسی خاندان پاکستان کو خراب ہی کریں گے، درست نہیں۔
ہم لوگ ابھی بھی اپنے پرانے بیرون ملک جماعتی خاندانوں کے ساتھ اچھے رابطے میں ہیں کیونکہ وہ ایک مخلص اور پاک بنیادوں پر رشتے تھے۔
تاہم وہ لوگ اسی ذہنیت کے حامل ہیں جو ہماری پہلے تھی اور جو ٹویٹر پر جماعتی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ساری تنقید عمران خان پر مگر شریف خاندان اور بھٹو پر کوئی بات نہیں۔ FB پر اپنی طرف سے بڑے ہی کوئی مزاحیہ سٹیٹس لگاتے ہیں جیسے کوئی بہت قابل بات کر لی ہو مگر وہ 'یوتھیا'، 'لنگڑا'، 'عمرانڈو' وغیرہ سے زیادہ نہیں ہوتی
زیادہ تر رجحان ن لیگی pages پر ہوتا ہے جو انتہائی واہیات ہوتے ہیں، مگر کسی طرح انہیں عمران خان کے خلاف ہونے والی کوئی غیر اخلاقی بات میں کوئی عار نظر نہیں آتی۔ مگر اگر انہیں کوئی جواب دے تو پھر شکایت ہو جاتی ہے
کچھ اکابرین ہیں، وہ فلسفیانہ انداز سے تنقید کریں گے۔ انہیں بھی تقریباً ساری برائی عمران خان میں نظر آتی ہے۔
مگر اب سب بھی ایسے نہیں۔ بہت سارے خاموش بھی رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے لیڈران سے اتفاق نہیں کرتے مگر پرانے نظریات سے کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے نصاب میں خاص بات یہ ہے کہ دین کی بات تو ہوتی ہی ہے مگر پھر بڑے ہی طریقے کے ساتھ اسکا ایک parallel بنا کر پاکستانی سیاست میں ضم کر دیا جاتا ہے۔
چونکہ عمران خان جماعت اسلامی سے ایک مختلف پارٹی چلا رہا ہے، اس لیے وہ تنقید کے نشانے پر رہتا ہے۔ مگر اتنی زیادہ کیوں؟
اس لیے کیونکہ عمران خان حقیقی طور پر ایک اچھا انسان ہے۔ اسکی زاتی زندگی میں بے شمار خامیاں ہوں گی مگر معاشرے کے لیے اس میں خیر کے علاوہ اور کچھ نہیں
یہ چیز جماعت اسلامی کو برداشت نہیں، ایک بندہ جو انکی طرح دیندار نہ ہو مگر معاشرے میں اپنے اچھے کاموں کی وجہ سے قابل قبول ہو۔
عمران خان ایک طرح سے جماعت اسلامی کے لیے threat ہے بے شک وہ پاکستان کے لیے جتنا بھی اچھا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جماعتی بھائی بہن کسی نہ کسی طریقے سے اس میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔
کسی مہذب بحث میں وہ کھلے عام اعتراف کریں گے کہ ہم شریف خاندان اور پی پی پی پر تو تنقید اس لیے نہیں کرتے کیونکہ وہ تو کنفرم 200 فیصد مجرم، کرپٹ، کمینے اور برے لوگ ہیں۔
اگر ایسا ہے تو پھر عمران خان پر 24 گھنٹے تنقید اسکا حل نہیں۔
عمران خان نہ تو آپ پر تنقید کرتا ہے اور نہ ہی آپ کے لیڈران کے بارے میں کوئی غلط بات کرتا ہے، یہ اسکی ایک قابل تحسین اور balanced خصلت ہے
تو آپ کو بھی اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے اسے بغیر کسی ثبوت کے کرپٹ یا چور کہنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کچھ ہے، تو دلائل سے بات کریں۔
اب کیا وجہ ہے کہ جماعت اسلامی والے جمیعت علمائے اسلام (ف) گروپ پر تنقید تو کیا انکا نام بھی نہیں لیتے؟
اس لیے کیونکہ وہ انکا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ مقابلہ نیک کاموں میں بالکل نہیں ہے۔
اگر یہ مولانا فضل الرحمان پر تنقید کریں گے تو جمیعت علمائے اسلام کا مولانا والا گروہ جماعت اسلامی پر theological حملے کرے گا۔ وہ پہلے ہی مولانا مودودی کو گستاخ صحابہ رض کہتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں
مولانا فضل الرحمان اور اسکے ارد گرد افراد پر آپ غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ لوگ علماء ہونے کے باوجود ایک انتہائی vulgar سوچ اور زبان کے حامل ہیں اور اسکے پیچھے دین کے علم کا ایک superiority complex ہے۔ یہی طرز عمل آپ کو سعد رضوی اور ٹی ایل پی میں بھی نظر آئے گا۔
یہ جو بھی کرتے ہیں، اس میں مذہب کو ایک بنیاد بنا لیتے ہیں۔ اگر آپ ان پر تنقید کریں گے تو وہ اسے کھلم کھلا اسلام دشمنی، علماء دشمنی اور گستاخی سے جوڑ دیں گے
معاشرے میں یہ بھی بہت دفعہ دیکھا جائے گا کہ مذہب کا علم رکھنے والے کہیں زیادہ بے خوفی سے گناہ کرتے ہیں
استغفار جہاں تک ہم لوگوں میں امید کی ایک کرن ہے، اسی طرح یہ سوچ بھی موجود ہوتی ہے کہ شاید ہم مذہبی لوگوں کے نیک اعمال زیادہ ہی ہوں اور ہماری نجات ہو جائے۔
اب یقیناً ایک کلین شیو اور یونیورسٹی کا پڑھا ہوا شخص تو کم ہی نیکیوں والا ہو گا نا؟ عبداللہ @noirroad کا ٹویٹر تھریڈ - تاریخ 18 مئی 2023
جماعت اسلامی 1971 میں فوج کا ساتھ دے کر غلط تھی -- اگر جماعت اسلامی جمہوری حکمرانی پر یقین رکھتی تھی تو انہیں مجیب الرحمان کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔
اور جماعت اسلامی آج پھر عمران خان کی مخالفت کر کے غلط کر رہی ہے۔
ذیل کا مضمون عبداللہ نے لکھا ہے، جن کے والد 30 سال سے جماعت اسلامی سے منسلک تھے۔
میرے محترم والدین بیرون ملک تقریباً 30 سال جماعت اسلامی سے وابستہ رہے اور دونوں بہت ہی
سرگرم اور جوشیلے کارکن تھے۔
درس و تدریس، مالی معاملات، انتظامات اور کمیونٹی ویلفیئر میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور اس طرح ہمارا خاندان ایک جماعتی خاندان کہلاتا تھا۔
گھر میں جماعت کا لٹریچر باقاعدگی سے آتا تھا اور وہ ایک طرح سے ہم بچوں کے لیے پڑھنا ضروری تھا۔
اگر جماعتی خاندان کمیونٹی ویلفئیر میں پیش پیش ہوں تو وہ اپنے بچوں کو بھی اس میں رضاکار بننے کی ترغیب دیتے ہیں اور یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔
میرے والد محترم مختلف لیبر کیمپ بھی جاتے، ان لوگوں کو دروس کے لیے لاتے اور ساتھ ہی ان افراد کے لیے مختلف قسم کے دوسرے ضروری بندوبست بھی کرتے رہتے تھے۔ وہ اکیلے نہیں تھے، انکے ساتھ انکے دوسرے جماعتی دوست بھی تھے جو ان کاموں میں پیش پیش تھے۔اس طرح ہم لڑکوں کا بھی ایک سرکل بن گیا۔
اس طرح ہم جماعتی لڑکوں کا بھی ایک سرکل بن گیا جو کہ سکول وغیرہ میں پہچانا جاتا تھا اور ہمیں ہر کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔
ہم سے ہر ایک کوئی نیک پارسا تھا بھی نہیں، سب نماز پڑھتے ہوں گے مگر کچھ چھپ کر سیگریٹ بھی پیتے تھے۔
یونیورسٹی تعلیم کے لیے جب پاکستان آ گیا تو مجھے بہت زیادہ alienation محسوس ہونا شروع ہو گئی اور مجھے ایسا لگا کہ پاکستان کی سیاست اتنی سیدھی نہیں جتنی ہمیں باور کرائی گئی اور نہ ہی یہاں کے ایسے حالات ہیں۔
میری نظر میں پاکستانی overall ایک grey region میں تھے۔
عرب ممالک اور گوروں کی طرح black & white کا کوئی تصور نہیں تھا۔ کوئی قانون نہیں، حق کو کوئی حق نہیں کہتا تھا اور ہر شخص ادھر بس کام چلانے کے چکر میں رہتا ہے
مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ جو میں نے لیٹریچر میں پڑھا، وہ اتنا قابل عمل نہیں جتنا بتایا جاتا ہے
کچھ عرصہ مزید گزرا اور والدین ہمیشہ کے لیے پاکستان آ گئے۔
جب میرے والد صاحب آئے تو وہ عمران خان پر شدید تنقید کرتے تھے۔ یہ تنقید انتہائی aggressive تھی اور اس میں اسکی زاتی زندگی کا عنصر بھی شامل تھا۔ یہاں تک کہ وہ اس بات پر بھی قائل تھے کہ وہ کوکین کا نشہ کرتا ہے عمران خان کو بیرون ملک طاقتوں نے پلانٹ کیا ہے اور یہ پاکستان کو شام یا لیبیا بنانے کے لیے آیا ہے
اس طرح کبھی طلعت حسین کا کوئی کالم شئیر کریں یا کبھی سلیم صافی کا۔ تنقید سب پر کرتے تھے مگر عمران خان پر بھی خوب ہوتی تھی۔
تاہم پانچ سال گزر گئے اور انکے نظریات میں بہت تبدیلی آنے لگ گئی۔ یہی چیز والدہ محترمہ کے ساتھ بھی ہوئی۔
بنیادی وجوہات پاکستان کی وہ روزمرہ زندگی اور اصول مملکت تھے جس کا موازنہ وہ باہر کے ممالک سے کرتے تھے
مگر ایک بہت ہی اہم وجہ یہ تھی کہ وہ جماعت اسلامی کے لٹریچر کو پہلے کی طرح باقاعدگی سے نہیں پڑھتے تھے۔ دین سے وابستگی پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی تھی اور دینی رجحان ریٹائرمنٹ کے بعد مزید بڑھ گیا، مگر ساتھ ہی دینی جماعتوں سے دوری ہونا شروع ہو گئی۔
2018 میں دونوں نے ووٹ عمران خان کو دیا اور والدہ تو ماموں، ممانی اور بھانجوں کے ساتھ لبرٹی چوک بھی جاتی رہیں۔
انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ملک کا نظام تبدیل ہونا ضروری ہے اور اسکا #حلصرفجماعت_اسلامی نہیں۔ یہ بھی اندازہ تھا کہ سیاسی خاندان پاکستان کو خراب ہی کریں گے، درست نہیں۔
ہم لوگ ابھی بھی اپنے پرانے بیرون ملک جماعتی خاندانوں کے ساتھ اچھے رابطے میں ہیں کیونکہ وہ ایک مخلص اور پاک بنیادوں پر رشتے تھے۔
تاہم وہ لوگ اسی ذہنیت کے حامل ہیں جو ہماری پہلے تھی اور جو ٹویٹر پر جماعتی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ساری تنقید عمران خان پر مگر شریف خاندان اور بھٹو پر کوئی بات نہیں۔ FB پر اپنی طرف سے بڑے ہی کوئی مزاحیہ سٹیٹس لگاتے ہیں جیسے کوئی بہت قابل بات کر لی ہو مگر وہ 'یوتھیا'، 'لنگڑا'، 'عمرانڈو' وغیرہ سے زیادہ نہیں ہوتی
زیادہ تر رجحان ن لیگی pages پر ہوتا ہے جو انتہائی واہیات ہوتے ہیں، مگر کسی طرح انہیں عمران خان کے خلاف ہونے والی کوئی غیر اخلاقی بات میں کوئی عار نظر نہیں آتی۔ مگر اگر انہیں کوئی جواب دے تو پھر شکایت ہو جاتی ہے
کچھ اکابرین ہیں، وہ فلسفیانہ انداز سے تنقید کریں گے۔ انہیں بھی تقریباً ساری برائی عمران خان میں نظر آتی ہے۔
مگر اب سب بھی ایسے نہیں۔ بہت سارے خاموش بھی رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے لیڈران سے اتفاق نہیں کرتے مگر پرانے نظریات سے کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے نصاب میں خاص بات یہ ہے کہ دین کی بات تو ہوتی ہی ہے مگر پھر بڑے ہی طریقے کے ساتھ اسکا ایک parallel بنا کر پاکستانی سیاست میں ضم کر دیا جاتا ہے۔
چونکہ عمران خان جماعت اسلامی سے ایک مختلف پارٹی چلا رہا ہے، اس لیے وہ تنقید کے نشانے پر رہتا ہے۔ مگر اتنی زیادہ کیوں؟
اس لیے کیونکہ عمران خان حقیقی طور پر ایک اچھا انسان ہے۔ اسکی زاتی زندگی میں بے شمار خامیاں ہوں گی مگر معاشرے کے لیے اس میں خیر کے علاوہ اور کچھ نہیں
یہ چیز جماعت اسلامی کو برداشت نہیں، ایک بندہ جو انکی طرح دیندار نہ ہو مگر معاشرے میں اپنے اچھے کاموں کی وجہ سے قابل قبول ہو۔
عمران خان ایک طرح سے جماعت اسلامی کے لیے threat ہے بے شک وہ پاکستان کے لیے جتنا بھی اچھا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جماعتی بھائی بہن کسی نہ کسی طریقے سے اس میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔
کسی مہذب بحث میں وہ کھلے عام اعتراف کریں گے کہ ہم شریف خاندان اور پی پی پی پر تو تنقید اس لیے نہیں کرتے کیونکہ وہ تو کنفرم 200 فیصد مجرم، کرپٹ، کمینے اور برے لوگ ہیں۔
اگر ایسا ہے تو پھر عمران خان پر 24 گھنٹے تنقید اسکا حل نہیں۔
عمران خان نہ تو آپ پر تنقید کرتا ہے اور نہ ہی آپ کے لیڈران کے بارے میں کوئی غلط بات کرتا ہے، یہ اسکی ایک قابل تحسین اور balanced خصلت ہے
تو آپ کو بھی اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے اسے بغیر کسی ثبوت کے کرپٹ یا چور کہنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کچھ ہے، تو دلائل سے بات کریں۔
اب کیا وجہ ہے کہ جماعت اسلامی والے جمیعت علمائے اسلام (ف) گروپ پر تنقید تو کیا انکا نام بھی نہیں لیتے؟
اس لیے کیونکہ وہ انکا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ مقابلہ نیک کاموں میں بالکل نہیں ہے۔
اگر یہ مولانا فضل الرحمان پر تنقید کریں گے تو جمیعت علمائے اسلام کا مولانا والا گروہ جماعت اسلامی پر theological حملے کرے گا۔ وہ پہلے ہی مولانا مودودی کو گستاخ صحابہ رض کہتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں
مولانا فضل الرحمان اور اسکے ارد گرد افراد پر آپ غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ لوگ علماء ہونے کے باوجود ایک انتہائی vulgar سوچ اور زبان کے حامل ہیں اور اسکے پیچھے دین کے علم کا ایک superiority complex ہے۔ یہی طرز عمل آپ کو سعد رضوی اور ٹی ایل پی میں بھی نظر آئے گا۔
یہ جو بھی کرتے ہیں، اس میں مذہب کو ایک بنیاد بنا لیتے ہیں۔ اگر آپ ان پر تنقید کریں گے تو وہ اسے کھلم کھلا اسلام دشمنی، علماء دشمنی اور گستاخی سے جوڑ دیں گے
معاشرے میں یہ بھی بہت دفعہ دیکھا جائے گا کہ مذہب کا علم رکھنے والے کہیں زیادہ بے خوفی سے گناہ کرتے ہیں
استغفار جہاں تک ہم لوگوں میں امید کی ایک کرن ہے، اسی طرح یہ سوچ بھی موجود ہوتی ہے کہ شاید ہم مذہبی لوگوں کے نیک اعمال زیادہ ہی ہوں اور ہماری نجات ہو جائے۔
اب یقیناً ایک کلین شیو اور یونیورسٹی کا پڑھا ہوا شخص تو کم ہی نیکیوں والا ہو گا نا؟ عبداللہ @noirroad کا ٹویٹر تھریڈ - تاریخ 18 مئی 2023
جماعت اسلامی 1971 میں فوج کا ساتھ دے کر غلط تھی -- اگر جماعت اسلامی جمہوری حکمرانی پر یقین رکھتی تھی تو انہیں مجیب الرحمان کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔
اور جماعت اسلامی آج پھر عمران خان کی مخالفت کر کے غلط کر رہی ہے۔
ذیل کا مضمون عبداللہ نے لکھا ہے، جن کے والد 30 سال سے جماعت اسلامی سے منسلک تھے۔
میرے محترم والدین بیرون ملک تقریباً 30 سال جماعت اسلامی سے وابستہ رہے اور دونوں بہت ہی
سرگرم اور جوشیلے کارکن تھے۔
درس و تدریس، مالی معاملات، انتظامات اور کمیونٹی ویلفیئر میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور اس طرح ہمارا خاندان ایک جماعتی خاندان کہلاتا تھا۔
گھر میں جماعت کا لٹریچر باقاعدگی سے آتا تھا اور وہ ایک طرح سے ہم بچوں کے لیے پڑھنا ضروری تھا۔
اگر جماعتی خاندان کمیونٹی ویلفئیر میں پیش پیش ہوں تو وہ اپنے بچوں کو بھی اس میں رضاکار بننے کی ترغیب دیتے ہیں اور یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔
میرے والد محترم مختلف لیبر کیمپ بھی جاتے، ان لوگوں کو دروس کے لیے لاتے اور ساتھ ہی ان افراد کے لیے مختلف قسم کے دوسرے ضروری بندوبست بھی کرتے رہتے تھے۔ وہ اکیلے نہیں تھے، انکے ساتھ انکے دوسرے جماعتی دوست بھی تھے جو ان کاموں میں پیش پیش تھے۔اس طرح ہم لڑکوں کا بھی ایک سرکل بن گیا۔
اس طرح ہم جماعتی لڑکوں کا بھی ایک سرکل بن گیا جو کہ سکول وغیرہ میں پہچانا جاتا تھا اور ہمیں ہر کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔
ہم سے ہر ایک کوئی نیک پارسا تھا بھی نہیں، سب نماز پڑھتے ہوں گے مگر کچھ چھپ کر سیگریٹ بھی پیتے تھے۔
یونیورسٹی تعلیم کے لیے جب پاکستان آ گیا تو مجھے بہت زیادہ alienation محسوس ہونا شروع ہو گئی اور مجھے ایسا لگا کہ پاکستان کی سیاست اتنی سیدھی نہیں جتنی ہمیں باور کرائی گئی اور نہ ہی یہاں کے ایسے حالات ہیں۔
میری نظر میں پاکستانی overall ایک grey region میں تھے۔
عرب ممالک اور گوروں کی طرح black & white کا کوئی تصور نہیں تھا۔ کوئی قانون نہیں، حق کو کوئی حق نہیں کہتا تھا اور ہر شخص ادھر بس کام چلانے کے چکر میں رہتا ہے
مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ جو میں نے لیٹریچر میں پڑھا، وہ اتنا قابل عمل نہیں جتنا بتایا جاتا ہے
کچھ عرصہ مزید گزرا اور والدین ہمیشہ کے لیے پاکستان آ گئے۔
جب میرے والد صاحب آئے تو وہ عمران خان پر شدید تنقید کرتے تھے۔ یہ تنقید انتہائی aggressive تھی اور اس میں اسکی زاتی زندگی کا عنصر بھی شامل تھا۔ یہاں تک کہ وہ اس بات پر بھی قائل تھے کہ وہ کوکین کا نشہ کرتا ہے عمران خان کو بیرون ملک طاقتوں نے پلانٹ کیا ہے اور یہ پاکستان کو شام یا لیبیا بنانے کے لیے آیا ہے
اس طرح کبھی طلعت حسین کا کوئی کالم شئیر کریں یا کبھی سلیم صافی کا۔ تنقید سب پر کرتے تھے مگر عمران خان پر بھی خوب ہوتی تھی۔
تاہم پانچ سال گزر گئے اور انکے نظریات میں بہت تبدیلی آنے لگ گئی۔ یہی چیز والدہ محترمہ کے ساتھ بھی ہوئی۔
بنیادی وجوہات پاکستان کی وہ روزمرہ زندگی اور اصول مملکت تھے جس کا موازنہ وہ باہر کے ممالک سے کرتے تھے
مگر ایک بہت ہی اہم وجہ یہ تھی کہ وہ جماعت اسلامی کے لٹریچر کو پہلے کی طرح باقاعدگی سے نہیں پڑھتے تھے۔ دین سے وابستگی پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی تھی اور دینی رجحان ریٹائرمنٹ کے بعد مزید بڑھ گیا، مگر ساتھ ہی دینی جماعتوں سے دوری ہونا شروع ہو گئی۔
2018 میں دونوں نے ووٹ عمران خان کو دیا اور والدہ تو ماموں، ممانی اور بھانجوں کے ساتھ لبرٹی چوک بھی جاتی رہیں۔
انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ملک کا نظام تبدیل ہونا ضروری ہے اور اسکا #حلصرفجماعت_اسلامی نہیں۔ یہ بھی اندازہ تھا کہ سیاسی خاندان پاکستان کو خراب ہی کریں گے، درست نہیں۔
ہم لوگ ابھی بھی اپنے پرانے بیرون ملک جماعتی خاندانوں کے ساتھ اچھے رابطے میں ہیں کیونکہ وہ ایک مخلص اور پاک بنیادوں پر رشتے تھے۔
تاہم وہ لوگ اسی ذہنیت کے حامل ہیں جو ہماری پہلے تھی اور جو ٹویٹر پر جماعتی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ساری تنقید عمران خان پر مگر شریف خاندان اور بھٹو پر کوئی بات نہیں۔ FB پر اپنی طرف سے بڑے ہی کوئی مزاحیہ سٹیٹس لگاتے ہیں جیسے کوئی بہت قابل بات کر لی ہو مگر وہ 'یوتھیا'، 'لنگڑا'، 'عمرانڈو' وغیرہ سے زیادہ نہیں ہوتی
زیادہ تر رجحان ن لیگی pages پر ہوتا ہے جو انتہائی واہیات ہوتے ہیں، مگر کسی طرح انہیں عمران خان کے خلاف ہونے والی کوئی غیر اخلاقی بات میں کوئی عار نظر نہیں آتی۔ مگر اگر انہیں کوئی جواب دے تو پھر شکایت ہو جاتی ہے
کچھ اکابرین ہیں، وہ فلسفیانہ انداز سے تنقید کریں گے۔ انہیں بھی تقریباً ساری برائی عمران خان میں نظر آتی ہے۔
مگر اب سب بھی ایسے نہیں۔ بہت سارے خاموش بھی رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے لیڈران سے اتفاق نہیں کرتے مگر پرانے نظریات سے کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے نصاب میں خاص بات یہ ہے کہ دین کی بات تو ہوتی ہی ہے مگر پھر بڑے ہی طریقے کے ساتھ اسکا ایک parallel بنا کر پاکستانی سیاست میں ضم کر دیا جاتا ہے۔
چونکہ عمران خان جماعت اسلامی سے ایک مختلف پارٹی چلا رہا ہے، اس لیے وہ تنقید کے نشانے پر رہتا ہے۔ مگر اتنی زیادہ کیوں؟
اس لیے کیونکہ عمران خان حقیقی طور پر ایک اچھا انسان ہے۔ اسکی زاتی زندگی میں بے شمار خامیاں ہوں گی مگر معاشرے کے لیے اس میں خیر کے علاوہ اور کچھ نہیں
یہ چیز جماعت اسلامی کو برداشت نہیں، ایک بندہ جو انکی طرح دیندار نہ ہو مگر معاشرے میں اپنے اچھے کاموں کی وجہ سے قابل قبول ہو۔
عمران خان ایک طرح سے جماعت اسلامی کے لیے threat ہے بے شک وہ پاکستان کے لیے جتنا بھی اچھا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جماعتی بھائی بہن کسی نہ کسی طریقے سے اس میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔
کسی مہذب بحث میں وہ کھلے عام اعتراف کریں گے کہ ہم شریف خاندان اور پی پی پی پر تو تنقید اس لیے نہیں کرتے کیونکہ وہ تو کنفرم 200 فیصد مجرم، کرپٹ، کمینے اور برے لوگ ہیں۔
اگر ایسا ہے تو پھر عمران خان پر 24 گھنٹے تنقید اسکا حل نہیں۔
عمران خان نہ تو آپ پر تنقید کرتا ہے اور نہ ہی آپ کے لیڈران کے بارے میں کوئی غلط بات کرتا ہے، یہ اسکی ایک قابل تحسین اور balanced خصلت ہے
تو آپ کو بھی اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے اسے بغیر کسی ثبوت کے کرپٹ یا چور کہنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کچھ ہے، تو دلائل سے بات کریں۔
اب کیا وجہ ہے کہ جماعت اسلامی والے جمیعت علمائے اسلام (ف) گروپ پر تنقید تو کیا انکا نام بھی نہیں لیتے؟
اس لیے کیونکہ وہ انکا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ مقابلہ نیک کاموں میں بالکل نہیں ہے۔
اگر یہ مولانا فضل الرحمان پر تنقید کریں گے تو جمیعت علمائے اسلام کا مولانا والا گروہ جماعت اسلامی پر theological حملے کرے گا۔ وہ پہلے ہی مولانا مودودی کو گستاخ صحابہ رض کہتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں
مولانا فضل الرحمان اور اسکے ارد گرد افراد پر آپ غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ لوگ علماء ہونے کے باوجود ایک انتہائی vulgar سوچ اور زبان کے حامل ہیں اور اسکے پیچھے دین کے علم کا ایک superiority complex ہے۔ یہی طرز عمل آپ کو سعد رضوی اور ٹی ایل پی میں بھی نظر آئے گا۔
یہ جو بھی کرتے ہیں، اس میں مذہب کو ایک بنیاد بنا لیتے ہیں۔ اگر آپ ان پر تنقید کریں گے تو وہ اسے کھلم کھلا اسلام دشمنی، علماء دشمنی اور گستاخی سے جوڑ دیں گے
معاشرے میں یہ بھی بہت دفعہ دیکھا جائے گا کہ مذہب کا علم رکھنے والے کہیں زیادہ بے خوفی سے گناہ کرتے ہیں
استغفار جہاں تک ہم لوگوں میں امید کی ایک کرن ہے، اسی طرح یہ سوچ بھی موجود ہوتی ہے کہ شاید ہم مذہبی لوگوں کے نیک اعمال زیادہ ہی ہوں اور ہماری نجات ہو جائے۔
اب یقیناً ایک کلین شیو اور یونیورسٹی کا پڑھا ہوا شخص تو کم ہی نیکیوں والا ہو گا نا؟ عبداللہ @noirroad کا ٹویٹر تھریڈ - تاریخ 18 مئی 2023
Foj ka politics se koyi lena dena nahi. Inho ne kashmir azad karana ta lekin kashmir ko inho ne india ki joli me penk diya or khud bn gaye property dealers
anyone who has seen jamiat in uet lahore or pu, will never go with jaman. nothing but thugs. even my parents generation saw, surkhoon kay moun per aik tamacha, fareed paracha. jamat-e-thali-kay-baigan.
کالجوں میں باقی گروپس کیطرح غنڈی گردی کرنا جماعت والوں کا بھی شیوہ تھا۔۔ مجھے تو ویسے بھی انکی بدمعاشیوں کیوجہ سے کوئی زیادہ انسیت نہیں تھی لیکن ایک مرتبہ انہوں نے کالج میں ہڑتال کی کال دی تھی اور کلاسز ختم کرا دی تھی۔ ہمارے کمیسٹری کے ایک سینیئر پروفیسر نے کلاس روم کی بجائے چپکے سے لیبارٹری میں کلاس لینی شروع کر دی ۔ ان غنڈوں کو خبر ہوگئی اور وہ ادھر آ دھمکے۔ ۔۔ اور یہانتک پہنچ گئے کہ انہوں نے ان بوڑھے پروفیسر کا گریبان پکڑ لیا۔ مجھے آج تک گریبان پکڑنے پر ان پروفیسر کا زرد چہرہ یاد ہے اور وہ کلین شیو غنڈہ جماعتی بھی یاد ہے۔ ۔ وہ دن اور آجکا دن ان غنڈوں سے نفرت ہی رہی ہے اور ماشاء اللہ انہوں نے بھی اپنے کسی عمل سے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔