جھوٹ پے جھوٹ ، ستر سال سے جھوٹستان

Shehbaz

Senator (1k+ posts)
سرد جنگ: روس کی جاسوسی کے لیے پاکستان کے بڈبیر ایئربیس سے اڑنے والے بدقسمت یو ٹو طیارے اور امریکی پائلٹ کی کہانی

_115082583_gettyimages-3330104.jpg

جب گیری پاورز کو روسی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا

یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ دنیا دو سپر پاورز امریکہ اور سویت یونین کے درمیان تقسیم ہو چکی تھی اور دونوں ہی طاقتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خاموش دوڑ میں مصروف تھیں۔

ایک طاقت سرمایہ دارانہ نظام کی نمائندگی کر رہی تھی اور دوسری کمیونسٹ طرز زندگی کی نمائندہ تھی۔ دونوں کے پاس اسلحے کی فراوانی تھی لیکن دونوں طاقتیں اس کے استعمال سے گریزاں تھیں۔ یہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جاسوسی کے نت نئے طریقوں سے لڑی جا رہی تھی، جس میں ’سی آئی اے‘ (امریکہ کی خفیہ ایجنسی) اور ’کے جی بی‘ (سویت خفیہ ایجنسی) کا کردار بہت اہم تھا۔

ایسے میں یکم مئی انیسسو ساٹھ کو سویت وزیر اعظم خروشیف نے اعلان کیا کہ ان کے ملک نے امریکہ کا ایک یو ٹو جاسوس طیارہ مار گرایا ہے اور اس کے پائلٹ فرانسس گیری پاورز کو گرفتار کر لیا ہے۔

سویت حکام کے مطابق یہ طیارہ سویت یونین کی فضائی حدود میں تقریباً ستر ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا اور اس میں جدید اور حساس ترین کیمرے لگے ہوئے تھے جن کی مدد سے یہ طیارہ سویت یونین کی اہم تنصیبات کی تصویریں اُتار رہا تھا۔ انھوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ اس جاسوس طیارے نے پاکستان کے شہر پشاور کے نزدیک بڈبیر کے فضائی اڈے سے اڑان بھری تھی۔

یہ بین الاقوامی واقعہ عالمی تاریخ کے ساتھ ساتھ پاکستانی تاریخ کے تعلق سے بھی اس لیے بڑا اہم تھا کہ اس سے دنیا بھر کو معلوم ہو گیا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر امریکی فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے جہاں سے روسی تنصیبات پر نظر رکھی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ بڈبیر کا فضائی اڈا سنہ انیس سو انسٹھ میں قائم کیا گیا تھا اور اسے خاموشی سے دس سال کے لیے امریکہ کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ سنہ انیس سو ساٹھ میں جاسوس طیارے یو ٹو نے اسی اڈے سے پرواز بھری تھی اور اس کے گرائے جانے کے بعد پاکستان کے اس فضائی اڈے کا انکشاف ہوا تھا۔

_115082678_gettyimages-613461214.jpg

یو ٹو کی اس پرواز سے پہلے ہی ترکی اور ایران کے کئی فضائی اڈوں سے اسی نوعیت کے جاسوس طیارے سویت یونین کی حدود میں داخل ہو چکے تھے لیکن اپنی بلند پروازی کے باعث سویت یونین کے ریڈاروں سے اوجھل رہ پاتے تھے۔

سویت حکام صرف اتنا جان پاتے تھے کہ کوئی چیز ہے جو بہت اونچائی پر اڑتی ہوئی سویت حدود میں داخل ہوتی ہے اور واپس چلی جاتی ہے۔ یکم مئی کو جب بڈبیر سے اڑنے والا یو ٹو طیارہ قازقستان کے راستے سے سویت یونین کی حدود میں داخل ہوا تو سویت حکام پہلے سے تیار تھے۔

انھوں نے کوسولینو کے مقام پر زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایک میزائل سے اسے کامیابی سے نشانہ بنایا اور سویت حدود کے اندر گرانے میں کامیاب ہو گئے۔ پائلٹ فرانسس گیری پاورز نے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا دی جسے زمین پر پہنچتے ہی حراست میں لے لیا گیا۔

امریکیوں کی ایک بہترین ایجاد، ایک زندہ سلامت پائلٹ کے ساتھ سویت حکام کے ہاتھ لگ چکی تھی۔ سویت یونین نے گیری پاورز پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا اور دنیا بھر کی ہمدردیاں سمیٹیں۔

امریکہ کے صدر آئزن ہاور اور پاکستان کے صدر ایوب خان دونوں ہی نے سویت حکام کے ان الزامات کی تردید کی۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ ایک عام سی موسمیاتی پرواز تھی جو راستہ بھٹک کر سویت یونین کی فضائی حدود میں داخل ہو گئی تھی، مگر جب اگست انیس سو ساٹھ میں گیری پاورز پر ایک سویت عدالت میں مقدمہ شروع ہوا تو دنیا بھر کو علم ہو گیا کہ سویت حکام کے الزامات بالکل درست تھے۔


اگست انیس سو ساٹھ کو ماسکو میں قائم سویت یونین کی فوجی عدالت نے فرانسس گیری پاورز کو دس سال قید کی سزا سنائی۔ اس مقدمے کا آغاز دو روز قبل سترہ اگست انیس سو ساٹھ کو ہوا تھا جہاں گیری پاورز نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یکم مئی انیس سو ساٹھ کو انھوں نے پشاور کے نزدیک بڈبیر کے مقام سے اپنے طیارے کی پرواز کا آغاز کیا تھا اور ان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ پرواز کے دوران روسی علاقے کی تصاویر اتاریں۔

روسی عدالت نے گیری پاورز کے اعتراف جرم پر انھیں دس سال قید کی سزا سنائی تاہم ڈیڑھ سال بعد دس فروری انیس س باسٹھ کو انھیں امریکہ میں قید ایک روسی جاسوس کرنل رڈولف ایبل (اصل نام ولیم فشر) کے بدلے میں آزاد کر دیا گیا۔

یو ٹو طیارے کے اس واقعے کے بعد دنیا بڈبیر کے امریکی فوجی اڈے سے واقف ہو گئی۔ اس انکشاف کے بعد سویت یونین نے پاکستان سے شدید احتجاج کیا اور پھر پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔

دوسری طرف امریکہ نے بھی خاص خاص مواقع خصوصاً سنہ انیس سو پینسٹھ کی پاکستان، انڈیا جنگ کے دوران پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اختیار کیا۔ بڈبیر کا اڈہ دس سال کی مدت کے لیے تعمیر ہوا تھا اور طے ہوا تھا کہ اگر دس سال کے اختتام سے پہلے پاکستان نے اس اڈے کی بندش کا فیصلہ نہیں کیا تو معاہدے میں ازخود تجدید ہو جائے گی اور یہ اڈہ مزید دس برس تک بھی کام کرتا رہے گا۔

معاہدے کی اس شق کے پیش نظر پاکستان نے سنہ انیس سو اڑسٹھ میں امریکہ کو مطلع کر دیا تھا کہ وہ اس اڈے کی معاہدے کی تجدید کے لیے معذرت خواہ ہے۔ اٹھارہ جولائی انیس سو انہتر کو حکومت پاکستان کے ایک سرکاری ترجمان نے اعلان کیا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان دس سالہ معاہدے کے اختتام پر پشاور کے نزدیک بڈبیر کے مقام پر امریکی مواصلاتی اڈے نے گذشتہ شب سے کام کرنا بند کر دیا ہے۔

گیری پاورز کون تھے؟

پائلٹ گیری پاورز کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ اس کے والدین کان کنی کے شعبے سے وابستہ تھے مگر انھوں نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

وہ اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر اس نے ایئر فورس کے شعبے کا انتخاب کیا اور سنہ انیس سو باون میں امریکی فضائیہ سے منسلک ہو گئے۔ جنوری انیس سو انسٹھ میں ان کی خدمات سی آئی اے نے حاصل کر لیں۔ اسی برس اسے یو ٹو طیارہ اڑانے کی تربیت دی گئی۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ترکی اور پاکستان میں خدمات انجام دیں۔ اس کے اہلخانہ کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ وہ ناسا کے خلائی پراجیکٹ سے وابستہ ہے۔

گیری پاورز جس جاسوسی طیارے پر خدمات انجام دے رہا تھا وہ انتہائی حساس اور جدید ترین کیمرے سے مزین تھا۔ یہ ہائی ریزولیشن کیمرہ ستر ہزار فٹ کی بلندی سے بھی زمینی تنصیبات کی تصویریں کھینچ سکتا تھا۔ اس طیارے نے پہلے ترکی اور پھر ایران سے جاسوسی پروازوں کا سلسلہ جاری رکھا اور سنہ انیس سو انسٹھ میں جب پشاور کے نزدیک بڈبیر کے مقام پر امریکی فوجی اڈہ قائم ہوا تو یہ طیارہ وہاں سے پرواز کرنے لگا۔

سوویت حکام سنہ انیس س اٹھاون سے ہی یو ٹو کی سرگرمیوں سے کچھ کچھ واقف ہو چکے تھے مگر کوئی حتمی ثبوت ان کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ یکم مئی کو جب گیری پاورز کا یو ٹو طیارہ گرایا گیا تو سویت یونین کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ پاکستان خاموشی سے ان پروازوں کے لیے تعاون فراہم کر رہا ہے۔

رہائی کے بعد گیری پاورز وطن واپس لوٹ آئے تو انھیں اپنے ہی ملک کے حکام کی سردمہری کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر الزام لگا کہ انھوں نے طیارے سے چھلانگ لگانے سے قبل کیمرے کو اور اس میں محفوظ تصویروں کو ضائع کیوں نہیں کیا۔ ان پر یہ بھی الزام لگا کہ انھوں نے پیراشوٹ سے چھلانگ لگانے کے بجائے خودکشی کرنے والی گولیاں استعمال کیوں نہیں کیں۔

چھ مارچ انیس سو باسٹھ کو انھیں مسلح افواج کی ایک سلیکٹ کمیٹی کے سامنے ان الزامات کی وضاحت کے لیے طلب کیا گیا۔ گیری پاورز سلیکٹ کمیٹی کو مطمئن کرنے میں کامیاب رہے اور ان پر لگائے گئے الزامات واپس لے لیے گئے۔ مارچ انیس سو چونسٹھ میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ایلن ڈیلس نے گیری پاورز کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ انھوں نے انتہائی خطرناک حالات میں اپنے مشن کی تکمیل کی۔

سنہ انیس سو باسٹھ سے انیس سوستر تک گیری پاورز ایک امریکی فضائی کمپنی میں پائلٹ کے طور پر ملازمت کرتے رہے، اور ان کی تنخواہ سی آئی اے ادا کرتی تھی۔ سنہ انیس سوستر میں انھوں نے کرٹ جنٹری کے تعاون سے ایک کتاب ’آپریشن اوور فلائٹ‘ تحریر کی جس کے بعد امریکی فضائی کمپنی نے انھیں ملازمت سے برخاست کر دیا، جس کے بعد وہ ایک ہیلی کاپٹر اڑانے والے ادارے میں معمولی سی ملازمت کرنے لگے۔

اسی ملازمت کے دوران یکم اگست انیس سو ستہتر کو ہیلی کاپٹر کے ایک حادثے میں گیری پاورز ہلاک ہو گئے۔۔

گیری پاورز کی وفات کے بعد امریکی حکومت نے انھیں ’سِلور سٹار‘ اور ’پرزنر آف وار‘ میڈل سے نوازا۔ ان کے بیٹے فرانسس گیری پاورز جونیئر نے سنہ انس سو چھیانوے میں ایک کولڈ وار میوزیم قائم کیا جہاں انھوں نے اپنے والد اور دیگر افراد سے وابستہ اشیا نمائش کے لیے پیش کیں۔


فرانسس گیری پاورز کی مہم پر چند ٹی وی ڈرامے بھی بنے۔ سنہ دوہزار پندرہ میں ان کی رہائی پر ایک فلم ’برج آف سپائز‘ تیار کی گئی جس میں اُن کا کردار آسٹن اسٹوول نے ادا کیا تھا۔
_115082680_mediaitem115082679.jpg

گیری پاورز اور ان کا ساز و سامان جو روس نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا



https://www.bbc.com/urdu/world-54587679