Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
https://twitter.com/x/status/1824221465878949925
بنگلادیش میں شیخ حسینہ واجد کے دور میں اسیری کے 8 سال گزارنے کے بعد رہائی پانے والے وکیل احمد بن قاسم نے بتایا کہ قید میں انہیں اذان کی آواز بھی نہیں سننے دی جاتی تھی۔
احمد بن قاسم نے خفیہ جیل سے رہائی پانے کے بعد اسیری میں گزارے گئے لمحات کا احوال سناتے ہوئے کہا کہ وہ اس عرصے میں آئینہ گھر نامی جیل میں قید تھے اس دوران ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق احمد بن قاسم کو ان کے والد اور جماعت اسلامی کے رہنما میر قاسم علی کی وجہ سے اغوا کیا گیا تھا، جب وہ اپنے والد کا کیس لڑ رہے تھے، اغوا کے 4 دن بعد ان کے والد کو پھانسی دے دی گئی تھی۔
شیخ حسینہ واجد کے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد رہائی پانیوالے احمد بن قاسم نے بتایا کہ انہیں اسیری میں گزارے 8 سال بعد آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہتھکڑیاں پہناکر پہلی بار خفیہ جیل آئینہ گھر سے باہر نکالا گیا، میں نے پستول کی آواز سن کر اپنی سانس روک لی تھی، مگر انہوں نے مجھے مارنے کی بجائے ڈھاکا کے مضافاتی علاقے میں پھینک دیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قید کے دوران انہیں ہمیشہ زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا، جیل کے اندرونی حالات انتہائی سخت تھے، جبکہ قید کے دوران تیز آواز میں موسیقی بھی چلائی جاتی تھی، جس کی وجہ سے میں اذان کی آواز بھی نہیں سن پاتا تھا۔
قاسم نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک دیندار مسلمان ہیں، قید کے دوران انہیں نماز کے اوقات جاننے سے بھی دور رکھا گیا تھا، جبکہ ان کے اغواء کو کتنا وقت گزر گیا انہیں اس بات کا بھی پتہ نہیں چلنے دیا گیا تھا، اور جب موسیقی کی آواز بند ہوجاتی تھی تو وہ دوسرے قیدیوں کی تکلیف دہ آوازیں سنتے تھے۔
بنگلادیشی وکیل کا کہنا تھا کہ آہستہ آہستہ، میں نے محسوس کیا کہ قید میں اکیلا نہیں ہوں، وہاں میں نے لوگوں کے رونے کی آوازیں اور چیخیں بھی سنی تھیں۔
احمد بن قاسم نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ انہیں قید کرنے کا سبب ان کے والد کی جنگی جرائم کے الزام میں سزا تھی، بعد میں انہیں پھانسی دے دی گئی، جس کا علم مجھے تین سال بعد ہوا۔
jang.com.pk
بنگلادیش میں شیخ حسینہ واجد کے دور میں اسیری کے 8 سال گزارنے کے بعد رہائی پانے والے وکیل احمد بن قاسم نے بتایا کہ قید میں انہیں اذان کی آواز بھی نہیں سننے دی جاتی تھی۔
احمد بن قاسم نے خفیہ جیل سے رہائی پانے کے بعد اسیری میں گزارے گئے لمحات کا احوال سناتے ہوئے کہا کہ وہ اس عرصے میں آئینہ گھر نامی جیل میں قید تھے اس دوران ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق احمد بن قاسم کو ان کے والد اور جماعت اسلامی کے رہنما میر قاسم علی کی وجہ سے اغوا کیا گیا تھا، جب وہ اپنے والد کا کیس لڑ رہے تھے، اغوا کے 4 دن بعد ان کے والد کو پھانسی دے دی گئی تھی۔
شیخ حسینہ واجد کے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد رہائی پانیوالے احمد بن قاسم نے بتایا کہ انہیں اسیری میں گزارے 8 سال بعد آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہتھکڑیاں پہناکر پہلی بار خفیہ جیل آئینہ گھر سے باہر نکالا گیا، میں نے پستول کی آواز سن کر اپنی سانس روک لی تھی، مگر انہوں نے مجھے مارنے کی بجائے ڈھاکا کے مضافاتی علاقے میں پھینک دیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قید کے دوران انہیں ہمیشہ زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا، جیل کے اندرونی حالات انتہائی سخت تھے، جبکہ قید کے دوران تیز آواز میں موسیقی بھی چلائی جاتی تھی، جس کی وجہ سے میں اذان کی آواز بھی نہیں سن پاتا تھا۔
قاسم نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک دیندار مسلمان ہیں، قید کے دوران انہیں نماز کے اوقات جاننے سے بھی دور رکھا گیا تھا، جبکہ ان کے اغواء کو کتنا وقت گزر گیا انہیں اس بات کا بھی پتہ نہیں چلنے دیا گیا تھا، اور جب موسیقی کی آواز بند ہوجاتی تھی تو وہ دوسرے قیدیوں کی تکلیف دہ آوازیں سنتے تھے۔
بنگلادیشی وکیل کا کہنا تھا کہ آہستہ آہستہ، میں نے محسوس کیا کہ قید میں اکیلا نہیں ہوں، وہاں میں نے لوگوں کے رونے کی آوازیں اور چیخیں بھی سنی تھیں۔
احمد بن قاسم نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ انہیں قید کرنے کا سبب ان کے والد کی جنگی جرائم کے الزام میں سزا تھی، بعد میں انہیں پھانسی دے دی گئی، جس کا علم مجھے تین سال بعد ہوا۔

اذان کی آواز بھی سننے نہیں دی جاتی، شیخ حسینہ کی خفیہ جیل سے رہا ہونیوالے وکیل کی روداد
قاسم نے بتایا کہ وہ ایک دیندار مسلمان ہیں، قید کے دوران انہیں نماز کے اوقات جاننے سے بھی دور رکھا گیا تھا۔

- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/KxbQShh.jpeg