Zoq_Elia
Senator (1k+ posts)
مومن اور منافق کی پہچان
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع وابو معاوية ، عن الاعمش . ح حدثنا يحيى بن يحيى واللفظ له، اخبرنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن عدي بن ثابت ، عن زر ، قال: قال علي : والذي فلق الحبة وبرا النسمة، إنه لعهد النبي الامي صلى الله عليه وسلم، إلي ان " لا يحبني إلا مؤمن، ولا يبغضني إلا منافق ".
زر بن حبیش (اسدی کوفی جو ایک سو بیس یا تیس یا ستائیس برس کا ہو کر مرا اور اس نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا تھا) سے روایت هے: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اس کی جس نے دانہ چیرا (پھر اس نے گھاس اگائی) اور جان بنائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ ” نہیں محبت رکھے گا مجھ سے مگر مومن اور نہیں دشمنی رکھے گا مجھ سے مگر منافق ۔“۔
صحيح مسلم کتاب الایمان، باب: انصار اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے حدیث نمبر 240
جامع ترمذی, کتاب: فضائل و مناقب, حدیث نمبر 3736
سنن ابن ماجه, کتاب: فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل حدیث نمبر 114
سنن النسائى الصغرى، کتاب: ایمان اور ارکان ایمان، باب: ایمان کی نشانی حدیث نمبر 5021
سنن النسائى الصغرى، کتاب: ایمان اور ارکان ایمان، باب: منافق کی پہچان حدیث نمبر 5025
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تشریح
وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَام
لَوْ ضَرَبْتُ خَیْشُوْمَ الْمُؤْمِنِ بِسَیْفِیْ هٰذَا عَلٰۤى اَنْ یُّبْغِضَنِیْ مَاۤ اَبْغَضَنِیْ، وَ لَوْ صَبَبْتُ الدُّنْیَا بِجَمَّاتِهَا عَلَى الْمُنَافِقِ عَلٰۤى اَنْ یُّحِبَّنِیْ مَاۤ اَحَبَّنِیْ، وَ ذٰلِكَ اَنَّهٗ قُضِیَ فَانْقَضٰى عَلٰى لِسَانِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ ﷺ اَنَّهٗ قَالَ: «یَا عَلِیُّ! لَا یُبْغِضُكَ مُؤْمِنٌ، وَ لَا یُحِبُّكَ مُنَافِقٌ».
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان عالی شان ہے کہ اگر میں مومن کی ناک پر اپنی اس تلوار سے وار کروں کہ وہ مجھ سے بغض رکھے تو جب بھی وہ مجھ سے بغض نہ رکھے گا، اور اگر تمام متاعِ دنیا منافق کے آگے ڈھیر کر دوں کہ وہ مجھ سے محبت رکھے تو بھی وہ مجھ سے محبت نہ رکھے گا۔ اس لئے کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو پیغمبر اُمّی ﷺ کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: « اے علی! کوئی مومن تم سے بغض نہ رکھے گا، اور منافق تم سے محبت نہ رکھے گا »۔
( نہج البلاغہ حکمت نمبر 45 )
انصار صحابہ ، جن کے بارے میں اللہ کے رسول کا فرمان ہے کہ انصار سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے اور انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے، کا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درج بالا فرمان پر عمل
ثنا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : " مَا كُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِلا بِبُغْضِ عَلِيٍّ " ۔
جزء الحميري رقم الحديث: 39
حضرت ابو سعید خدری انصاریؓ سے روایت ہے کہ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو صرف اُن کے حضرت علی ابن ابی طالبؑ کے ساتھ بغض رکھنے کیوجہ سے پہچانتے تھے۔‘‘ ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قثنا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ ، قثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، قَالَ : أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ السُّلَمِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ : " مَا كُنَّا نَعْرِفُ مُنَافِقِينَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ إِلا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا "
فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل رقم الحديث 941
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضي الله عنه سے روایت ہے کہ ہم گروہ انصار اپنے منافقین کو نہیں پہنچانتے تھے مگر صرف اُن کے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ بُغض رکھنے کیوجہ سے۔
جنت اور دوزخ کی تقسیم
حدثنا أحمد بن الحسن القطان قال : حدثنا أحمد بن يحيي بن زكريا أبو العباس القطان قال : حدثنا محمد بن إسماعيل البرمكي قال : حدثنا عبد الله بن داهر قال : حدثنا أبي ، عن محمد بن سنان عن المفضل بن عمر قال : قلت لأبي عبد الله جعفر بن محمد الصادق " ع " لم صار أمير المؤمنين علي بن أبي طالب قسيم الجنة والنار ؟ قال : لان حبه إيمان وبغضه كفر ، وإنما خلقت الجنة لأهل الايمان ، وخلقت النار لأهل الكفر ، فهو عليه السلام قسيم الجنة والنار لهذه العلة، فالجنة لا يدخلها إلا أهل محبته ، والنار لا يدخلها إلا أهل بغضه .
علل الشرايع ج 1 ص 162
فضل بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں جو روایت کیا گیا ہے کہ اے علی تم جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنے والے ہو تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کس طرح قسیم النار و الجنۃ ہو سکتے ہیں؟
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فر مایا :کیونکہ انکی دوستی ایمان اور انکی دشمنی کفر ہے ،اور جنت اہل ایمان کے لئے خلق ہوئی ہے اور جہنم اہل کفر کے لئے خلق ہوئی ہے لہذا اسی بناء پر حضرت علی علیہ السلام قسیم النار والجنۃ ہیں۔ ان کے محب، جنت میں جائیں گے اور ان کے دشمن جہنم میں جائیں گے۔
اسی طرح سے دوسری روایت میں امام رضا علیہ السلام سے آیا ہے کہ
30 - حدثنا تميم بن عبد الله بن تميم القرشي قال : حدثني أبي عن أحمد بن علي الأنصاري عن أبي الصلت الهروي قال : قال المأمون يوما للرضا عليه السلام يا أبا الحسن أخبرني عن جدك أمير المؤمنين بأي وجه هو قسيم الجنة والنار و بأي معني فقد كثر فكري في ذلك ؟ فقال له الرضا عليه السلام : يا أمير المؤمنين ألم ترو عن أبيك عن آبائه عن عبد الله بن عباس أنه قال : سمعت رسول الله ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) يقول : حب علي إيمان وبغضه كفر ؟ فقال : بلي فقال الرضا عليه السلام : فقسمة الجنة والنار إذا كانت علي حبه وبغضه فهو قسيم الجنة والنار فقال المأمون: لا أبقاني بعدك يا أبا الحسن أشهد أنك وارث علم رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) قال: أبو الصلت الهروي: فلما انصرف الرضا عليه السلام إلى منزله أتيته فقلت له: يا بن رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) ما أحسن ما أجبت به أمير المؤمنين؟ فقال الرضا عليه السلام: يا أبا الصلت إنما كلمته حيث هو ولقد سمعت أبي يحدث عن آبائه عن علي عليه السلام إنه قال: قال: رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ): يا علي أنت قسيم الجنة يوم القيامة تقول للنار: هذا لي وهذا لك.
30عيون اخبار الرضا ج 1 ص 92 حدیث نمبر .
ابا صلت ھروی نے نقل کیا ہے کہ ایک دن مامون نے امام رضا علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہا
اے اباالحسن کافی مدت سے ایک مسئلہ میرا ذہن میں ہے ، میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں اور آپ سے اس کا جواب طلب کروں۔
امام رضا علیہ السلام نے دریافت کیا وہ مسئلہ کیا ہے؟
مامون نے کہا
مسئلہ یہ ہے کہ یہ روایت جو وارد ہوئی ہے کہ آپ کے جد حضرت علی مرتضی علیہ السلام جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں “ کس طرح آپ کے جد جنت و جہنم کو تقسیم کریں گے؟!
امام نے فرمایا
اے مامون کیا تو نے اپنے بزرگوں سے ، عبداللہ ابن عباس سے نہیں سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ پیغمبرﷺ فرماتے ہیں:
حب علی ایمان و بغضہ کفر “ علی علیہ السلام کی محبت ایمان ہے اور علی علیہ السلام کی دشمنی کفر ہے ۔
مامون نے کہا: بے شک میں نے سنا ہے۔
امام رضا نے فرمایا
بس اب جو بھی علی علیہ السلام کو دوست رکھے گا جنت میں جائے گا اور جو دشمن رکھے گا وہ دوزخ میں جائیگا، اس طریقے سے حضرت علی علیہ السلام جنت اور جہنم کو بانٹنے والے ہونگے۔
یہ جواب سن کر مامون نے کہا
اے اباالحسن علیہ السلام، خدا مجھے آپ کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی زندہ نہ رکھے ! میں گواہی دیتا ہوں کو واقعاً آپ پیغمبر اسلامﷺ کے حقیقی وارث ہیں۔
امام رضا علیہ السلام یہ جواب دے کر گھر واپس ہوئے میں بھی آپ کے ساتھ آپکے گھر گیا اور شوق و ذوق کے ساتھ آپکے پاس بیٹھ گیا اور عرض کیا
آپ نے حضرت علی علیہ السلام امیرالمؤمنین کے بارے میں مامون کو بڑا عجیب جواب دیا!
میرا گمان یہ تھا کہ مامون کے سوال کا اصلی جواب یہی ہے لیکن امام نے فرمایا
اے اباصلت ، میں نے اس وقت حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اتنی بات کی ہے (جسے وہ مامون سمجھ سکے) ورنہ اس سوال کا جواب اس سے بھی بڑھ کر اس طرح ہے کہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے اور انھوں نے بھی اپنے بزرگوں سے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے اور آپ نے حضرت رسول خدا ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
اے علی علیہ السلام قیامت کے دن تم جنت و جہنم کو تقسیم کرو گے اس طریقے سے کہ (پل صراط پر کھڑے ہو کر) کہو گے:۔
دوزخ یہ میرا آدمی ہے اسے چھوڑ دے اور وہ تیرا آدمی ہے اسے پکڑ لے۔
زر بن حبیش (اسدی کوفی جو ایک سو بیس یا تیس یا ستائیس برس کا ہو کر مرا اور اس نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا تھا) سے روایت هے: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اس کی جس نے دانہ چیرا (پھر اس نے گھاس اگائی) اور جان بنائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ ” نہیں محبت رکھے گا مجھ سے مگر مومن اور نہیں دشمنی رکھے گا مجھ سے مگر منافق ۔“۔
صحيح مسلم کتاب الایمان، باب: انصار اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے حدیث نمبر 240
جامع ترمذی, کتاب: فضائل و مناقب, حدیث نمبر 3736
سنن ابن ماجه, کتاب: فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل حدیث نمبر 114
سنن النسائى الصغرى، کتاب: ایمان اور ارکان ایمان، باب: ایمان کی نشانی حدیث نمبر 5021
سنن النسائى الصغرى، کتاب: ایمان اور ارکان ایمان، باب: منافق کی پہچان حدیث نمبر 5025
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تشریح
وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَام
لَوْ ضَرَبْتُ خَیْشُوْمَ الْمُؤْمِنِ بِسَیْفِیْ هٰذَا عَلٰۤى اَنْ یُّبْغِضَنِیْ مَاۤ اَبْغَضَنِیْ، وَ لَوْ صَبَبْتُ الدُّنْیَا بِجَمَّاتِهَا عَلَى الْمُنَافِقِ عَلٰۤى اَنْ یُّحِبَّنِیْ مَاۤ اَحَبَّنِیْ، وَ ذٰلِكَ اَنَّهٗ قُضِیَ فَانْقَضٰى عَلٰى لِسَانِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ ﷺ اَنَّهٗ قَالَ: «یَا عَلِیُّ! لَا یُبْغِضُكَ مُؤْمِنٌ، وَ لَا یُحِبُّكَ مُنَافِقٌ».
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان عالی شان ہے کہ اگر میں مومن کی ناک پر اپنی اس تلوار سے وار کروں کہ وہ مجھ سے بغض رکھے تو جب بھی وہ مجھ سے بغض نہ رکھے گا، اور اگر تمام متاعِ دنیا منافق کے آگے ڈھیر کر دوں کہ وہ مجھ سے محبت رکھے تو بھی وہ مجھ سے محبت نہ رکھے گا۔ اس لئے کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو پیغمبر اُمّی ﷺ کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: « اے علی! کوئی مومن تم سے بغض نہ رکھے گا، اور منافق تم سے محبت نہ رکھے گا »۔
( نہج البلاغہ حکمت نمبر 45 )
انصار صحابہ ، جن کے بارے میں اللہ کے رسول کا فرمان ہے کہ انصار سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے اور انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے، کا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درج بالا فرمان پر عمل
ثنا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : " مَا كُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِلا بِبُغْضِ عَلِيٍّ " ۔
جزء الحميري رقم الحديث: 39
حضرت ابو سعید خدری انصاریؓ سے روایت ہے کہ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو صرف اُن کے حضرت علی ابن ابی طالبؑ کے ساتھ بغض رکھنے کیوجہ سے پہچانتے تھے۔‘‘ ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قثنا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ ، قثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، قَالَ : أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ السُّلَمِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ : " مَا كُنَّا نَعْرِفُ مُنَافِقِينَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ إِلا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا "
فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل رقم الحديث 941
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضي الله عنه سے روایت ہے کہ ہم گروہ انصار اپنے منافقین کو نہیں پہنچانتے تھے مگر صرف اُن کے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ بُغض رکھنے کیوجہ سے۔
جنت اور دوزخ کی تقسیم
حدثنا أحمد بن الحسن القطان قال : حدثنا أحمد بن يحيي بن زكريا أبو العباس القطان قال : حدثنا محمد بن إسماعيل البرمكي قال : حدثنا عبد الله بن داهر قال : حدثنا أبي ، عن محمد بن سنان عن المفضل بن عمر قال : قلت لأبي عبد الله جعفر بن محمد الصادق " ع " لم صار أمير المؤمنين علي بن أبي طالب قسيم الجنة والنار ؟ قال : لان حبه إيمان وبغضه كفر ، وإنما خلقت الجنة لأهل الايمان ، وخلقت النار لأهل الكفر ، فهو عليه السلام قسيم الجنة والنار لهذه العلة، فالجنة لا يدخلها إلا أهل محبته ، والنار لا يدخلها إلا أهل بغضه .
علل الشرايع ج 1 ص 162
فضل بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں جو روایت کیا گیا ہے کہ اے علی تم جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنے والے ہو تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کس طرح قسیم النار و الجنۃ ہو سکتے ہیں؟
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فر مایا :کیونکہ انکی دوستی ایمان اور انکی دشمنی کفر ہے ،اور جنت اہل ایمان کے لئے خلق ہوئی ہے اور جہنم اہل کفر کے لئے خلق ہوئی ہے لہذا اسی بناء پر حضرت علی علیہ السلام قسیم النار والجنۃ ہیں۔ ان کے محب، جنت میں جائیں گے اور ان کے دشمن جہنم میں جائیں گے۔
اسی طرح سے دوسری روایت میں امام رضا علیہ السلام سے آیا ہے کہ
30 - حدثنا تميم بن عبد الله بن تميم القرشي قال : حدثني أبي عن أحمد بن علي الأنصاري عن أبي الصلت الهروي قال : قال المأمون يوما للرضا عليه السلام يا أبا الحسن أخبرني عن جدك أمير المؤمنين بأي وجه هو قسيم الجنة والنار و بأي معني فقد كثر فكري في ذلك ؟ فقال له الرضا عليه السلام : يا أمير المؤمنين ألم ترو عن أبيك عن آبائه عن عبد الله بن عباس أنه قال : سمعت رسول الله ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) يقول : حب علي إيمان وبغضه كفر ؟ فقال : بلي فقال الرضا عليه السلام : فقسمة الجنة والنار إذا كانت علي حبه وبغضه فهو قسيم الجنة والنار فقال المأمون: لا أبقاني بعدك يا أبا الحسن أشهد أنك وارث علم رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) قال: أبو الصلت الهروي: فلما انصرف الرضا عليه السلام إلى منزله أتيته فقلت له: يا بن رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) ما أحسن ما أجبت به أمير المؤمنين؟ فقال الرضا عليه السلام: يا أبا الصلت إنما كلمته حيث هو ولقد سمعت أبي يحدث عن آبائه عن علي عليه السلام إنه قال: قال: رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ): يا علي أنت قسيم الجنة يوم القيامة تقول للنار: هذا لي وهذا لك.
30عيون اخبار الرضا ج 1 ص 92 حدیث نمبر .
ابا صلت ھروی نے نقل کیا ہے کہ ایک دن مامون نے امام رضا علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہا
اے اباالحسن کافی مدت سے ایک مسئلہ میرا ذہن میں ہے ، میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں اور آپ سے اس کا جواب طلب کروں۔
امام رضا علیہ السلام نے دریافت کیا وہ مسئلہ کیا ہے؟
مامون نے کہا
مسئلہ یہ ہے کہ یہ روایت جو وارد ہوئی ہے کہ آپ کے جد حضرت علی مرتضی علیہ السلام جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں “ کس طرح آپ کے جد جنت و جہنم کو تقسیم کریں گے؟!
امام نے فرمایا
اے مامون کیا تو نے اپنے بزرگوں سے ، عبداللہ ابن عباس سے نہیں سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ پیغمبرﷺ فرماتے ہیں:
حب علی ایمان و بغضہ کفر “ علی علیہ السلام کی محبت ایمان ہے اور علی علیہ السلام کی دشمنی کفر ہے ۔
مامون نے کہا: بے شک میں نے سنا ہے۔
امام رضا نے فرمایا
بس اب جو بھی علی علیہ السلام کو دوست رکھے گا جنت میں جائے گا اور جو دشمن رکھے گا وہ دوزخ میں جائیگا، اس طریقے سے حضرت علی علیہ السلام جنت اور جہنم کو بانٹنے والے ہونگے۔
یہ جواب سن کر مامون نے کہا
اے اباالحسن علیہ السلام، خدا مجھے آپ کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی زندہ نہ رکھے ! میں گواہی دیتا ہوں کو واقعاً آپ پیغمبر اسلامﷺ کے حقیقی وارث ہیں۔
امام رضا علیہ السلام یہ جواب دے کر گھر واپس ہوئے میں بھی آپ کے ساتھ آپکے گھر گیا اور شوق و ذوق کے ساتھ آپکے پاس بیٹھ گیا اور عرض کیا
آپ نے حضرت علی علیہ السلام امیرالمؤمنین کے بارے میں مامون کو بڑا عجیب جواب دیا!
میرا گمان یہ تھا کہ مامون کے سوال کا اصلی جواب یہی ہے لیکن امام نے فرمایا
اے اباصلت ، میں نے اس وقت حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اتنی بات کی ہے (جسے وہ مامون سمجھ سکے) ورنہ اس سوال کا جواب اس سے بھی بڑھ کر اس طرح ہے کہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے اور انھوں نے بھی اپنے بزرگوں سے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے اور آپ نے حضرت رسول خدا ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
اے علی علیہ السلام قیامت کے دن تم جنت و جہنم کو تقسیم کرو گے اس طریقے سے کہ (پل صراط پر کھڑے ہو کر) کہو گے:۔
دوزخ یہ میرا آدمی ہے اسے چھوڑ دے اور وہ تیرا آدمی ہے اسے پکڑ لے۔
اللهم صلی علی محمد و آل محمد
Last edited: