
گزشتہ روز نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی زیر صدارت چینی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے کمرشل صارفین کے لیے الگ قیمت مقرر کرنے کے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہ ہوئے اور حکومت کے ساتھ ایکس مل قیمت 159 روپے فی کلو صرف ایک ماہ کے لیے مقرر کرنے پر بمشکل رضامند ہوئے۔
اجلاس میں شوگر ملز مالکان نے کہا کہ وہ گھریلو صارفین کے لیے سستی اور کمرشل صارفین کے لیے مہنگی چینی فراہم کریں گے۔ تاہم حکومتی ٹیم کا کہنا تھا کہ 350 روپے فی من گنے کی قیمت کے حساب سے گھریلو صارفین کے لیے فراہم کی گئی چینی کو یقینی بنانا بڑا چیلنج ہے، کیونکہ منڈی والے اس چینی کو کمرشل نرخوں پر بیچ سکتے ہیں، جس سے چینی کی کمی اور قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر ڈیلرز کی جانب سے شوگر ملز کے ڈیلیوری آڈرز پر سٹہ کھیلنے کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ذرائع کے مطابق ملک بھر میں چینی کی گراں فروشی کے خلاف وزیراعظم کی ہدایت پر کراچی سمیت سندھ بھر میں وفاقی اداروں کی مشترکہ ٹیموں نے شوگر مافیا کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن شروع کیا، جس سے چینی کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر ڈیلرز نے فروری میں شوگر ملز سے ایڈوانس میں ڈیلیوری آڈرز حاصل کیے تھے۔ اس کے بعد، چینی کے ذخائر شوگر ملوں میں رہے، لیکن ایجنٹوں نے ان آڈرز کو مختلف ایجنٹس تک فروخت کیا۔ اس عمل کے دوران، ہر ایجنٹ نے اپنی مرضی کا منافع شامل کیا، جس کی وجہ سے چینی مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی مہنگی ہو چکی تھی۔ کسی ایجنٹ نے فی کلو 5 روپے، تو کسی نے 2 یا 3 روپے فی کلو منافع کمایا۔
وفاقی اداروں کے مشترکہ کریک ڈاؤن کے دوران شوگر مافیا نے گھٹنے ٹیک دیے اور فوراً چینی کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہو گئی۔ ایف آئی اے، ایف بی آر اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران کے مطابق ان کارروائیوں میں باقاعدہ گرفتاریوں کا عمل شروع نہیں ہوا، لیکن چھاپہ مار کارروائیوں نے چینی کی قیمتوں میں کمی کی راہ ہموار کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بحران میں شوگر ملز مالکان سے زیادہ شوگر ایجنٹس نے فائدہ اٹھایا، جنہوں نے کروڑوں روپے کا کاروبار کیا۔ کراچی میں اجناس کی ہول سیل مارکیٹ نیوچالی یا جوڑیا بازار میں ایک ماہ میں چینی کی فی کس ایک ارب روپے سے زائد کی خرید و فروخت کی گئی۔
چینی کی قیمتوں میں کمی کے بعد شوگر ڈیلرز نے حکومتی کارروائیوں کے اثرات کے بعد قیمتوں میں کمی کے ڈیکلریشن جمع کرائے، جس سے چینی کی قیمت معمول پر آنا شروع ہو گئی۔ یہ تمام کارروائیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ شوگر مافیا کی گرفتاری اور ان کی سرگرمیوں پر کنٹرول نے چینی کی قیمتوں میں استحکام پیدا کیا ہے۔
شوگر ڈیلرز اور ایجنٹس کے سٹہ کھیلنے نے چینی کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ کیا، مگر حکومتی کارروائیوں نے ان مافیا عناصر کو قابو میں لا کر قیمتوں کو معمول پر لایا۔ اس بحران میں شوگر ملز مالکان کی نسبت شوگر ایجنٹس نے زیادہ فائدہ اٹھایا اور کروڑوں روپے کا دھندا کیا۔