![harasment.jpg](/proxy.php?image=https%3A%2F%2Fi.ibb.co%2Fvs6K7Fb%2Fharasment.jpg&hash=b1de090ad82191d514368dbdf725ee74)
خاتون ملازم کو ہراساں کرنے کا واقعہ سامنے لانے پر آئی بی اے کا طالبعلم بے دخل
کراچی انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالبعلم کیلئے یونیورسٹی کی خاتون ملازم کو ہراساں کرنے کے واقعے کیخلاف آواز بلند کرنا جرم بن گیا،یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبعلم محمد جبرائیل کو یونیورسٹی سے نکال دیا،یونیورسٹی انتظامیہ نے ہراساں کرنے کے کیس پر خاموشی اختیار نہ کرنے پر سخت فیصلہ کیا۔
محمد جبرائیل یونیورسٹی میں مبینہ طور پر خاتون ملازم کو ہراساں کرنے کے واقعے کے عینی شاہد ہیں،اس واقعے کو طالبعلم نے سوشل میڈیا پر اجاگر کیا جبکہ انتظامیہ کو باضابطہ شکایت درج کرانے میں متاثرہ خاتون کی مدد کی تھی۔
آئی بی اے کے فیس بک پیج پر شیئر کیے گئے بیان کے مطابق محمد جبرائیل نے انسٹی ٹیوٹ کے شکایتی دفتر کا استعمال کرنے کے بجائے واقعے کو سوشل میڈیا پر رپورٹ کیا، جس کی وجہ سے اس سزا کے طور پر یونیورسٹی سے نکالا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ طالب علم کو اپنے عمل پر نظر ثانی کیلئے مواقع دیئے گئے جبکہ مشاورت کی گئی لیکن طالبعلم نے سوشل میڈیا سے واقعہ کی پوسٹ نہیں ہٹائی جس پر ڈسپلنری کمیٹی نے آئی بی اے کے اصولوں کیخلاف ورزی کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی کو اپناتے ہوئے طالب علم کو نکالنے کا فیصلہ کیا،طالبعلم محمد جبرائیل کے خلاف انضباطی کاروائی شروع کردی گئی ہے۔
محمد جبرائیل نے ڈپارٹمنٹ کے منیجر کو ایک خاتون ملازم پر چیختے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ میں میں تمہیں یہاں ساری رات بیٹھا کر رکھوں گا،آئی بی اے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ محمد جبرائیل کی جانب سے ہراساں کرنے کے واقعے کو نوٹس لینا اچھا عمل ہے لیکن اس واقعے کو سوشل میڈیا پر اچھالنا یونیورسٹی کے قوانین کیخلاف ہے۔
سوشل میڈیا پر یونیورسٹی کے اس فیصلے پر شدید ردعمل سامنے آرہاہے،جبرائیل کے وکیل اور سماجی کارکن جبران ناصر نے کہا کہ شرم کی بات ہے کہ ایک طالب علم کو ایک خاتون اسٹاف ممبر کو ہراساں کیے جانے کے واقعے کیخلاف بولنے پر بے دخل کردیا گیا۔سچ بولنے کی وجہ سے ایک طالب علم کا کیریئر برباد ہو گیا ہے۔
جبران ناصر نے کہا کہ آئی بی اے نے جبرائیل پر مبینہ طور پر ہراساں کرنے والے کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا الزام عائد کیا گیا، انہوں نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ ہراساں کرنے کے معاملے پر خاموش تھا،خاتون نے ایک ماہ قبل اپنی شکایت پیش کی تھی اور اسے باقاعدہ جواب نہیں ملا،جب وہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کے پاس گئی تو اسے کہا گیا کہ جبرائیل کو تو ہم دیکھیں گے،تم دوسرا کوئی عینی شاہد لاؤ،جس کے بعد یونیورسٹی نے جبرائیل کو نکال دیا۔