
کوٹری: دریائے سندھ، جو کبھی سندھ کی زرخیزی کی علامت تھا، اب پانی کی شدید کمی کا شکار ہو چکا ہے۔ کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے، جس کے باعث ٹھٹھہ اور سجاول پل کے اطراف دریا کی زمینیں خشک ہو گئی ہیں اور زرعی زمینیں بنجر ہونے لگی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق، دریائے سندھ میں پانی کی کمی 52 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جبکہ سکھر بیراج پر پانی کی کمی 69 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ گڈو اور سکھر بیراج پر پانی کی سطح میں تشویشناک حد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ کنٹرول روم کے انچارج نے کہا کہ دریائے سندھ میں پانی کی اتنی کمی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ پانی اتنا کم ہے کہ نہروں میں پانی چھوڑنے کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔
گڈو بیراج پر پانی کی سطح 20 ہزار کیوسک اور سکھر بیراج پر 15 ہزار کیوسک رہ گئی ہے۔ سکھر اور دادو کینال میں پانی ختم ہو گیا ہے، جبکہ بیگاری کینال میں ہر طرف زمین خشک نظر آ رہی ہے۔ یہ صورتحال سندھ کے کسانوں کے لیے انتہائی تشویشناک ہے، کیونکہ پانی کی کمی کے باعث زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں اور فصلوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں پانی کی کمی کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں، بارشوں میں کمی اور پانی کے غیر منصفانہ تقسیم ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو سندھ کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔
زرعی ماہرین اور کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دریائے سندھ میں پانی کی کمی کے مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کے ذخائر کو بہتر طریقے سے منظم کرنے، نہروں کی مرمت اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہے۔
دریائے سندھ میں پانی کی کمی نہ صرف زراعت بلکہ پینے کے پانی کی دستیابی کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اگر صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو سندھ کے لاکھوں افراد کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے معاشی اور سماجی مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں اور کس طرح دریائے سندھ کے پانی کو بچانے اور اس کے منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جاتا ہے۔