
پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضاربانی کے بارے میں خیال ہے کہ وہ انتہائی جمہوریت پسند اور آمریت کے ہتھکنڈوں کے خلاف ہیں مگر عامرمتین اور دیگر صحافیوں نےانکی حقیقت بتادی کہ وہ جمہوریت کے کتنے بڑے چمپئین ہیں۔
عامرمتین نے رضاربانی کو جمہوریت پسند سمجھنے پر معافی مانگ لی اور کہا کہ میں اپنی غلطی کی معافی مانگتا ہوں۔ رضا ربانی ہمارا بھی ہیرو تھا۔ اس نے پارلیمان میں جمہوریت گلی رکھوائی اور ایک کتاب بھی لکھی اور پھر ایک دفعہ فوجی جرنیل کو توسیع دیتے ہوئیے آنسو بھی دکھائے۔ اس کے بعد ان کا ضمیر سو گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ زرداری نے ان کی بہت بے عزتی بھی کی مگر وہ بس کتاب لکھ کر دوستوں کو بجھواتے رہے۔ اب اعتزاز کی طرح وہ بھی فارغ کر دیے گئے ہیں مگر ذرا بھی شرم نہیں کرتے کہ پرانے جذبات کا ذرا اظہار کر دیں۔ کمزور لوگ تھے کیا؟
https://twitter.com/x/status/1836932553699184692
انہوں نے مزید کہا کہ ہم بے وقوف تھے کہ ان پر امید لگا بیٹھے تھے کہ یہ بہت منافق تھے کہ اختیار کے مزے لے کر گھر چلے گئے۔ شاید ہم ہی بے وقوف تھے۔
صحافی نعمت خان نے ردعمل دیا کہ رضا ربانی صاحب بہت ساروں سے بہتر سیاستدان ہیں، لیکن وہ کتنا اصول پسند ہیں؟ ایک واقعہ سن کر فیصلہ کیجیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ربانی صاحب نے ۶ جنوری ۲۰۱۵ کو جب ۲۱ ویں آئینی ترمیمی بل، جس کے نتیجے میں فوجی عدالتیں قائم ہوئیں، کے حق میں ووٹ دیا تو ان کی آنکھوں میں آنسو اور زبان پر یہ الفاظ تھے:"میں ۱۲ سے زائد برسوں سے سینیٹ میں ہوں، مگر میں کبھی اتنا شرمندہ نہیں ہوا جتنا آج ہوں۔ میں نے اپنی ضمیر کے خلاف ووٹ دیا۔"۔
نعمت خان نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں کے موضوع پر کوئی ڈیبیٹ ہو اور ربانی صاحب کے قیمتی آنسو اور وہ سنہرے الفاظ ہوں جو انہوں ادا کیے تھے تو پھر کسی اور کو مہمان خصوصی کیسے بلا سکتا ہے۔ یہہی صورت حال کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کراچی پریس کلب کے تحت منعقدہ سیمینار کے لیے بھی پیش آئی۔
انہوں نے کہا کہ ربانی صاحب نے بہ خوشی دعوت قبول کی اور سیمینار سے ایک دن قبل اپنی شرکت کی تصدیق بھی کی۔ مگر ۲۱ جنوری کو نہ تو انہوں نے فون اٹھایا اور نہ ہی تشریف لائے۔ اس کے ۵۱ دن بعد ربانی صاحب چئیرمین سینیٹ منتخب ہوئے اور ایک اہم قانون ساز فورم کے چئیرمین کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔
https://twitter.com/x/status/1837005933240881524
ڈاکٹر شہباز گل نے عامر متین کے ٹویٹ پہ تبصرہ کیا کہ بد قسمتی سے یہ لوگ شروع سے ہی ایسے تھے۔ بھٹو صاحب سے بڑا آمر کون تھا۔ انہوں نے حنیف رامے صاحب کو ننگا کر کے لاہور قلعے میں پھروایا تھا۔ یہ سب دھوکے باز تھے۔ کوئی جمہوریت پسند نہیں تھے۔
https://twitter.com/x/status/1837026737349091645
شہباز نے ردعمل دیا کہ دراصل یہ ہمیشہ سے بہروپیے تھے بس ہمیں دھوکہ دیتے رہے اور ہم اپنی معصومیت میں انھیں جمہوریت کا چیمپئن سمجھتے رہے۔ لیکن اللہ تعلٰی نے ان بہروپیوں کے چہرے سے نقا ب کیچھینچ لی اور یہ بیچ بازار میں ننگے ہو گئے
https://twitter.com/x/status/1836991412098695217
اکبر باجوہ نے تبصرہ کیا کہ متفق سر! مجھے بھی یہ گمان تھا لیکن مختار مسعود صاحب کہتے ہیں “یہ بھلا کہاں ضروری ہے کہ ایک بڑا آدمی تمام عمر بڑا ہی رہے۔ بعض آدمیوں کی زندگی میں بڑائی کا صرف ایک دن آتا ہے اور اس دن کے ڈھلنے کے بعد ممکن ہے کہ انکی باقی زندگی اُس بڑائی کی نفی میں بسر ہو جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ” کیسا قحط الرجال ہے کہ تقریبا وہ تمام نابغے جو ہمیں گمان تھا کہ کسی حد میں اب بھی، ہر لحظہ پھیلتی ظلمت میں آواز کی شمع جلا سکتے ہیں، جرم کی حد تک صُمٗ بکمٗ ہیں
https://twitter.com/x/status/1836959275765354897
ایک اور سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہو سکتی مگر ہمیں نہیں یہ نوٹنکی باز ہے ہم تو شروع سے جانتے ہیں اگر یہ سچا شخص ہوتا اور ملک سے مخلص ہوتا تو کبھی پیپلز پارٹی اور زرداری ڈاکو کے ساتھ نہ ہوتا
https://twitter.com/x/status/1836998893311016991
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/ami11m11.jpg