
ملک میں صحافیوں کے خلاف سائبر قوانین کے استعمال میں تیزی آ گئی ہے، اور حالیہ واقعے میں صحافی جنید ساگر قریشی کو پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 کے تحت ایک مبینہ جھوٹی اور اشتعال انگیز ویڈیو بیان پر مقدمے کا سامنا ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق، یہ ویڈیو واٹس ایپ پر وائرل ہوئی جسے مدعی اے ایس آئی طارق ممتاز نے دیکھا۔
فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (FIR) کے مطابق، جنید ساگر نے اپنی ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ سرسید تھانے کی حدود میں ایک ڈمپر گاڑی نے خاتون کو کچل دیا، جس پر عوام نے مشتعل ہو کر پولیس پر پتھراؤ کیا، اور اس دوران ایس ایچ او سمیت دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ تاہم، پولیس کے مطابق ویڈیو کی جانچ پڑتال کے بعد یہ تمام معلومات غلط ثابت ہوئیں، نہ کوئی خاتون کے کچلے جانے کا واقعہ رپورٹ ہوا اور نہ ہی پولیس پر حملے کا کوئی ثبوت ملا۔
https://twitter.com/x/status/1910908279149969498
پولیس کے مطابق جنید صغر قریشی پر پیکا ایکٹ 2016 کی دفعہ 21 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جس کا تعلق "نفرت انگیز اور جھوٹی معلومات پھیلانے" سے ہے۔
پیکا قانون، جو 2016 میں نافذ ہوا، کو ابتدا سے ہی انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے "کالا قانون" قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت صرف سائبر کرائمز کو کنٹرول کرنے کے بجائے اسے اکثر حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
حال ہی میں قومی اسمبلی نے ایک متنازع ترمیمی بل بھی منظور کیا، جس کے دوران پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی اور صحافیوں نے واک آؤٹ کیا۔
جنید ساگر قریشی پہ مقدمہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رواں سال متعدد صحافیوں کو پیکا کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے۔ 20 مارچ کو صحافی فرحان ملک، جو "رفتار" میڈیا ایجنسی کے بانی اور سابق نیوز ڈائریکٹر (سماء ٹی وی) تھے، کو ریاست مخالف مواد چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان پر پیکا اور پاکستان پینل کوڈ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
چند دن بعد اردو نیوز سے وابستہ صحافی وحید مراد کو ایف آئی اے نے اسلام آباد کی عدالت میں پیش کیا۔ ان پر پیکا کی دفعات 9 (جرم کی تعریف)، 10 (سائبر دہشت گردی)، 20 (بدنیتی پر مبنی کوڈ) اور 26A (جھوٹی معلومات پھیلانے کی سزا) کے تحت مقدمہ بنایا گیا۔
کراچی میں رواں ماہ کے آغاز میں ایک پولیس افسر کو بھی صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف توہین آمیز کلمات استعمال کرنے پر پیکا کے تحت گرفتار کیا گیا۔
صحافتی حلقوں اور آزادی اظہار کے علمبرداروں نے جنید ساگر کے خلاف کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر معلومات کی تصدیق کرنا ضروری ہے، لیکن محض اختلافِ رائے یا کسی خبر کی بنیاد پر سخت قانونی کارروائی آزادی صحافت پر حملہ ہے۔
پیکا کے تحت صحافیوں کے خلاف بڑھتی کارروائیاں ایک بڑے سوال کو جنم دیتی ہیں: کیا اس قانون کا استعمال صرف جرائم کے خلاف ہے، یا اسے ریاستی بیانیے سے اختلاف کرنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟