سی ڈی اے کی غیر شفاف نیلامی اور مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

screenshot_1740593575285.png


اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے 37 ارب روپے مالیت کے 29 کمرشل پلاٹس کی غیر شفاف نیلامی کا انکشاف ہوا۔ اجلاس میں وزارت داخلہ کے ذیلی اداروں کی آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لیا گیا، جس کے دوران آئی جی ایف سی خیبرپختونخوا، ڈی جی رینجرز سندھ، ڈی جی گلگت بلتستان اسکاؤٹس، اور ڈی جی پاکستان کوسٹل گارڈز کی عدم شرکت پر ارکان نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین پی اے سی نے ان اداروں کے آڈٹ پیراز مؤخر کر دیے۔


اجلاس میں سی ڈی اے کی آڈٹ رپورٹ برائے سال 2023-24 کا جائزہ لیا گیا، جس میں 29 کمرشل پلاٹس کی غیر شفاف نیلامی کا معاملہ سامنے آیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ سی ڈی اے بورڈ نے 37 ارب روپے سے زائد مالیت کے پلاٹس کی نیلامی کو منظور کیا تھا، لیکن 5 پلاٹس کی نیلامی مؤخر کر دی گئی، جبکہ ایک پلاٹ سے متعلق قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں۔ چیئرمین پی اے سی نے سوال اٹھایا کہ جب سی ڈی اے بورڈ نے پلاٹس کی نیلامی منظور کی، تو قانونی مسائل کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا؟

اجلاس میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ سی ڈی اے نے اپنی فنانشل اسٹیٹمنٹ تیار نہیں کی ہے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ سی ڈی اے ایکٹ کے تحت چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی تصدیق کے بعد فنانشل اسٹیٹمنٹ وفاقی حکومت کو پیش کرنا ضروری ہے، لیکن سی ڈی اے نے اب تک ایسا نہیں کیا۔ پی اے سی ارکان نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین سی ڈی اے کے رویے کو نامناسب قرار دیا۔ کمیٹی نے سی ڈی اے سے 6 ماہ کے اندر فنانشل اسٹیٹمنٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

اجلاس میں گن اینڈ کنٹری کلب کی جانب سے بغیر لائسنس کے اسلحہ اور گولہ بارود رکھنے کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔ کمیٹی رکن سید حسین طارق نے سوال اٹھایا کہ ایک سرکاری ادارہ بغیر لائسنس کے اسلحہ کیسے خرید سکتا ہے؟ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ یہ کلب وزارت بین الصوبائی رابطہ کے ماتحت آنے کو تیار ہی نہیں تھا۔ کمیٹی نے اس معاملے پر ایک ماہ میں انکوائری مکمل کرنے اور رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت دی۔

اجلاس میں وزارت داخلہ کی جانب سے زائد قیمت پر یونیفارم خریدنے سے قومی خزانے کو 4 کروڑ 61 لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کا معاملہ بھی زیرِ غور آیا۔ آئی جی ایف سی خیبرپختونخوا کی کمیٹی میں عدم شرکت پر ارکان نے برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین پی اے سی نے وزارت داخلہ کو ایک ماہ میں ریکوری کرنے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔

اجلاس میں بارہ کہو بائی پاس کی تعمیر کے لیے براہ راست ٹھیکے کے ذریعے زیادہ قیمت پر کام دینے کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ تعمیرات کے دوران مختلف حادثات کی وجہ سے دو افراد جاں بحق ہوئے۔ چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ یہ کام ایمرجنسی کی بنیاد پر وزیر اعظم آفس کے احکامات پر کیا گیا تھا۔ تاہم، آڈٹ حکام نے سوال اٹھایا کہ براہ راست کنٹریکٹنگ کیوں کی گئی؟ چیئرمین پی اے سی نے سی ڈی اے سے ایک ماہ میں تفصیلی رپورٹ طلب کی۔

اجلاس میں ایف سی خیبرپختونخوا کی جانب سے کیمروں کی غیر شفاف خریداری سے قومی خزانے کو 3 کروڑ روپے سے زائد کے نقصان کا معاملہ بھی زیرِ غور آیا۔ پی اے سی نے ایف سی سے متعلقہ تمام آڈٹ پیراز کو یکجا کرکے ریکوری کی ہدایت دی۔

چیئرمین پی اے سی نے تمام معاملات پر سخت کارروائی کی ہدایت دی اور متعلقہ اداروں کو ایک ماہ کے اندر تفصیلی رپورٹس جمع کرانے کا حکم دیا۔ کمیٹی نے زور دیا کہ مالی بے ضابطگیوں کو روکنے اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
 

Back
Top