Amal
Chief Minister (5k+ posts)
بسم الله الرحمن الرحيم
شفاعت کا صحیح تصور قرآن کی رو سے
اس کی اجازت کے سوا کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہے، یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے سو اسی کی عبادت کرو، کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے۔
سورت یونس ۳
يَوْمَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً ۔ (طہ 20:109)
اس دن شفاعت نفع نہ دے گی۔ سوائے خدائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔
اور ڈرو اس دن سے جب کوئی آدمی کسی دوسرے کے کام نہ آئے گا اور نہ اس سے کوئی بدلہ قبول کیا جائے گا نہ اس کے حق میں کسی کی سفارش کام آئے گی اور نہ ہی اسے کہیں سے مدد مل سکے گی۔‘‘(البقرہ 2:123 )
(اس دن) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور انسان کو وہی ملے گا جس کے لیے اس نے محنت کی ہوگی۔ اور اس کی یہ محنت بہت جلد دیکھی جائے گی۔ پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (النجم 53:38-41)۔
’’ نہ تمھاری آرزووں سے کچھ ہونے کا ہے نہ اہل کتاب کی۔ جو کوئی برائی کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے مقابل کوئی کارساز اور مددگار نہیں پائے گا۔‘‘(النسا 4:123 )
وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّاماً مَعْدُودَةً قُلْ أَاتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ۔ بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔ (البقرہ 2:80-81)
اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں،جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ افْتَرَى إِثْماً عَظِيماً ۔ (النساء 4:48)
بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جو کچھ ہے، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔
اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں،جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرہ 2:80-81)
کہہ دو کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آیا۔ اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا (کیا جائے گا) میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے(احقاف ۹)
شفاعت ﷲ کے اذن سے ہوگی اور ان اہل ایمان کے حق میں ہوگی جو اپنی حدوسع تک نیک عمل کرنے کی کوشش کے باوجود کچھ گناہوں میں آلودہ ہوگئے ہوں ۔ جان بوجھ کر خیانتیں اور بدکاریاں کرنے والے،اور کبھی خدا سے نہ ڈرنے والے لوگ حضورﷺ کی شفاعت کے مستحق نہیں ہیں ۔ چنانچہ حدیث میں حضو رﷺ کا ایک طویل خطبہ مروی ہے جس میں آپ جرم خیانت کی شدت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز یہ خائن لوگ اس حالت میں آئیں گے کہ ان کی گردن پر ان کا خیانت سے حاصل کیا ہوا مال لدا ہوگا اور وہ مجھے پکاریں گے کہ ’’يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي( یا رسول اﷲ ؐ میری مدد فرمایئے)مگر میں جواب دوں گا کہ لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ(میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا،میں نے تجھ تک خدا کا پیغام پہنچا دیا تھا)
{ صحیح البخاری، کتاب الجہاد حدیث3037}
آپ نے فرمایا: قیامت کے دن میں تم میں سے کسی شخص سے اِس حال میں ہر گز نہ ملوں کہ اُس کی گردن پر کوئی بکری لدی ہوئی ہو اور وہ پکار رہی ہو یا اُس کی گردن پر کوئی گھوڑا لدا ہوا ہو اور وہ آواز دے رہا ہو۔ (پھر)وہ شخص کہے: اے اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے۔ جس پر میں کہوں گا :مجھے تمہارے معاملے میں اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں تو (جو حق پہنچانا تھا) تمہیں پہنچا چکا ہوں۔
شفاعت ساری کی ساری اللہ سبحانہ وتعالی کی مرضی سے ہوگی ۔ قرآن پاک میں یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ کسی مجرم کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے آسرے پر نہیں رہنا چاہیے ۔ قیامت کے دن حضور اس کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔
سورہ طہٰ کی جو آیت اوپر نقل کی گئی ہے اس سے یہ بالکل واضح ہے کہ شفاعت کی اجازت دینے یا نہ دینے کا سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کسی کے حق میں اجازت نہ دیں تو کس کی مجال ہوگی کہ وہ کچھ کہہ سکے۔
شفاعت کے بارے میں یہ غلط تصور ( ہم کچھ بھی غلط کریں نبی صلیؐ علیہ وسلم ہمیں بچا لیں گے ) عام لوگوں کو عمل صالح کی محنت سے بے نیاز کردیتا ہے۔ لوگ ساری زندگی اپنی خواہش نفسانی کی پیروی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی ’’بزرگ ، بابا ‘‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوجائے گا کہ جناب یہ میرا آدمی ہے آپ اس کو چھوڑ دیں۔ روز حشر اس چیز کا کوئی امکان نہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دین کی دعوت شفاعت کا تصور نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل صالح ہے ۔ روزِ قیامت جس شخص کے پاس یہ سرمایہ نہیں، اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ اسے کوئی نجات نہیں دلا سکتاہے ۔
الله سبحانہ وتعالی ہم سب کو اپنے سیدھے راستے کی طرف گامزن کریں -آمین