
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور سابق صوبائی وزیر عاطف خان کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے، جس کا اثر حکومتی قانونی ٹیم پر بھی پڑا۔ عاطف خان کے خلاف اینٹی کرپشن نوٹس کے معاملے پر پشاور ہائی کورٹ میں 12 مارچ کو سماعت مقرر تھی، لیکن ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور عاطف خان کے وکیل نے "راضی نامہ" کی بنیاد پر سماعت ملتوی کروا دی۔
بعد ازاں، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمان خیل نے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نوروز خان کو نوٹس جاری کر کے وضاحت طلب کی کہ کس کی ہدایت پر کیس ملتوی کرایا گیا، کیونکہ اینٹی کرپشن کسی بھی راضی نامے کے موڈ میں نہیں تھا۔ معاملہ مزید الجھنے پر نوروز خان نے مؤقف اختیار کیا کہ "شاید" عدالت نے غلطی سے ایڈووکیٹ جنرل آفس کی جانب سے بھی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کا ذکر کر دیا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1903419436297597303
اس پیش رفت کے بعد معروف قانون دان قاضی انور ایڈووکیٹ نے نوروز خان کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے عدالت میں غلط بیانی کی ہے تو وہ مستعفی ہوں، اور اگر غلط بیانی نہیں کی تو عدالت میں تحریری حکمنامہ درست کروانے کی درخواست کیوں نہیں دی؟
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور عاطف خان کے خلاف کیس میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے کمزور دلائل پر ناراض تھے۔
حکومت نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے عاطف خان کے کیس میں تاخیری حربے استعمال کرنے اور حکومتی مؤقف کے برعکس عدالت میں بیان دینے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نوروز خان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔ ذرائع کے مطابق، نوروز خان نے قاضی انور ایڈووکیٹ کے استعفے کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا، تاہم بالآخر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
اس معاملے پر ایک اور پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب قاضی انور ایڈووکیٹ کا نوروز خان کے نام ایک آڈیو پیغام لیک ہو گیا، جس میں انہوں نے کہا:
"وزیراعلیٰ نے آپ کو ہٹانے کا کہا تھا، لیکن میں نے کہا کہ نہیں، اس سے لاء آفیسر کی بدنامی ہوگی، اس لیے اب آپ کو خود استعفیٰ دینے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ مستعفی ہو جائیں، پھر حالات بہتر ہوئے تو دیکھیں گے۔"
- Featured Thumbs
- https://khybernews.tv/wp-content/uploads/2024/11/IMG_3848.jpeg