
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے مرکزی رہنما، ثنا اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس کی طرح ہمارا ملک بھی یرغمال بنا ہوا ہے۔ جب حکمران طبقہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتا ہے اور تمام فیصلے طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو ایسی صورتِ حال میں ایسے واقعات جنم لیتے ہیں۔ طاقتور طبقہ ملک کے بنیادی مسائل کو نہیں سمجھتا، جس کا فائدہ غیر ریاستی عناصر اٹھاتے ہیں، جب عدلیہ اور آئین تک یرغمال بن جائیں۔
آج ٹی وی کے پروگرام ’نیوز انسائٹ ودعامرضیا‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل ہمیشہ آپریشن کی صورت میں نکالا گیا۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی تقریر بلوچستان کے مسئلے پر پیٹرول چھڑکنے کے مترادف ہے۔ بدقسمتی سے اس کا نقصان ہمیشہ نچلے طبقے کو ہی اٹھانا پڑتا ہے، اور یہ وہ حقیقت ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔
https://twitter.com/x/status/1899895065209881027
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے مسائل پر مختلف کمیٹیاں بنائی گئیں، مگر کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ ہم نے 18ویں ترمیم کے بعد توقع کی تھی کہ بلوچستان کے لوگوں کی زندگی بدل جائے گی اور انہیں سیاسی حقوق ملیں گے، لیکن اس ترمیم کے نام پر یہاں لوٹ مار جاری ہے۔
بی این پی کے سینئر رہنما نے کہا کہ بلوچستان کا تنازعہ دنیا بھر میں ہونے والے دیگر تنازعات سے مختلف نہیں ہے، کیونکہ بغاوتوں اور شورشوں کے بعد مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے ہی نکلتا ہے۔ یہ بات ہماری مقتدرہ اور باغی نوجوانوں دونوں کو سمجھنی چاہیے۔
ثنا اللہ بلوچ نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کا ایک مخصوص طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اسلام آباد یا وفاق بلوچستان کو نوآبادیاتی طرز پر چلاتا ہے اور ہمیں اپنے حقوق نہیں دیے جاتے۔ یہ سوچ غلط نہیں ہے، اور یہی احساس محرومی لوگوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
Last edited by a moderator: