![10sccccnanatramimm.jpg](https://www.siasat.pk/data/files/s3/10sccccnanatramimm.jpg)
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ عدلیہ کو پارلیمنٹ پر اعتماد ہے مگر عوام کا اعتماد عدلیہ پر ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئےکہا کہ سوال یہ ہے کہ قانون سازی کے وقت ایوان میں اپوزیشن کا موجود ہونا ضروری ہے ، اس کیس میں نیب قانون کی بہتری دیکھ رہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ کیس میں پورا قانون ہی کالعدم قرار دیدیں گے، اس کے علاوہ بھی آپشنز موجود ہیں، اگر دیکھا گیا کہ نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہیں تو عدالت دیگر آپشنز پر غور کرے گی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ عدالت کیسے آئین و قانون کا تحفظ کرتی ہے، آئین کا مطلب عوام ہیں، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس کیس میں فیصلہ کرنے کیلئے عدالت کس حد تک جاسکتی ہے، عدالتی سیاسی فیصلوں کی جگہ نہیں ہیں، اس کیس میں بھی سیاسی تنازعہ ہے، اگر ان نیب ترامیم سے احتساب کا معیار گرا تو عدالت انہیں کیسے برقرار رکھ سکے گی؟
انہوں نے مزید کہا کہ تمام پبلک آفس ہولڈرز قابل احتساب ہیں، اعتماد ہی تمام معاملات کا مرکز ہے، کسی بھی پبلک آفس ہولڈر کیلئے ڈاکٹرائن آف ٹرسٹ ضروری ہے، ہم ججز بھی قابل احتساب ہیں، سپریم کورٹ کو ایک معاملے میں فنڈز ملے، ہم نے وہ اسٹیٹ بینک میں جمع کروادیئے، اگر ان فنڈز کی تفصیلات اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر نا ڈلواتے تو آج ہم پر تنقید ہورہی ہوتی۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ درست ہے کہ سب سے اہم اعتماد ہوتا ہے، عدلیہ کو چاہیے کہ پارلیمنٹ اور سیاستدانوں پراعتماد کرے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو پارلیمنٹ پر اعتماد ہے مگر عوام عدلیہ پر اعتماد کرتے ہیں،اس عدالت کو کچھ بنیادی لوازمات پر بھی عمل کرنا ہے۔