![ioe111g31.jpg](https://www.siasat.pk/data/files/s3/ioe111g31.jpg)
وزیراعظم شہبازشریف نے 23 جون کو نیشنل ایکشن پلان پر اپیکس کمیٹی اجلاس میں آپریشن ’عزم استحکام‘ شروع کر کے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دے دی تھی۔آپریشن عزم استحکام کے خلاف ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے مخالفت کی گئی تھی جس پر وزیراعظم نے کہا تھا کہ آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں اور سکیورٹی ذرائع سے بھی اس بارے وضاحت کی گئی ہے۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق آپریشن عزم استحکام کا تاثر غلط لیا گیا، نہ ہی کوئی آپریشن ہو گا اور نہ کسی کو اس کے گھر سے بے دخل کیا جائے گا، آپریشن عزم استحکام کا مقصد صرف نیشنل ایکشن پلان میں نئی روح پھونکنا ہے۔ آپریشن عزم استحکام نیشنل ایکشن پلان کا تسلسل ہے جس میں انسداد دہششت گردی کے لیے کثیرالجہتی پالیسی تیار کی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے تحت منشیات سمگلنگ کی روک تھام، دہشت گردوں کو سزائیں دلوانے کے لیے موثر قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے منشیات اور سمگلنگ کے ذریعے حاصل کیا گیا پیسہ استعمال کیا جا رہا ہے، دہشت گرد خوارج ہیں جن سے مذاکرات نہیں کیے جا سکتے۔
ذرائع نے بتایا کہ خطے میں امن وامان کے قیام کے لیے موثر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر روز 6 ملین لیٹر تیل ایران سے سمگل کیا جاتا ہے جس کی مقدار اس سے پہلے 12 ملین لیٹر تھی، روزانہ کی بنیاد پر 3 ٹن منشیات بھی پکڑی جاتی ہے۔ غیرقانونی ذرائع آمدن سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کی جاتی ہے، غیرقانونی تمباکو ملکی معیشت کیلئے زہرقاتل ہے جس کیلئے ایف بی آر کا فرسودہ نظام بھی بدلنا ہو گا۔
علاوہ ازیں وزیر دفاع خواجہ آصف کا امریکی خبررساں ادارے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ جلد بازی میں نہیں کیا گیا، ملک میں ایسا سیاسی ماحول ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے باعث حکومتی فیصلوں کو جگہ نہیں دینا چاہتیں۔ آپریشن بارے سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کیے جائیں گے اور یہ معاملہ اسمبلی میں بھی لائینگے تاکہ اراکین کے تحفظات وسوالات کا جواب دیکر اعتماد میں لیں۔