Skeptic
Siasat.pk - Blogger
اقبال کے افکار میں مرد مومن یا انسان کاملکا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ اس کے لئے وہ مرد حق بندہ آفاقی بندہ مومن مرد خدا اور اس قسم کی بہت سی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں حقیقتاً یہ ایک ہی ہستی کے مختلف نام ہیں جو اقبال کے تصور خودی کا مثالی پیکر ہے۔ مرد مومن اور سچے مسلمان کے لئے اسلام نے جو معیار مقرر کیا ہے بنیادی طور پر عمران نے اسی کو اپنا یا ہے
.
عمران کے کردار اور شخصیت کی اہم خصوصیات کلام اقبال کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔
مستی و جذب و عشق
بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ کو وہ اپنی تمام تر کوششوں کو عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا استحکام عشق کا مرہون ِ منت ہے بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کے لئے بھی عشق ضروری ہے اور عشق کیا ہے ؟ اعلیٰ ترین نصب العین کے لئے سچی لگن ، مقصد آفرینی کا سر چشمہ، یہ جذبہ انسان کو ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزئوں کو پورا کرنے کے لئے سر گرم عمل رکھتا ہے۔ یہ جذبہ مرد مومن کو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ گہری محبت کی بدولت عطا ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے اس کے اعمال صالح اور پاکیزہ ہو جاتے ہیں اسے دل و نگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے۔ اور کردار میں پختگی آجاتی ہے ۔
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
یہی وجہ ہے کہ مرد مومن کی عملی زندگی میں اس جذبہ محرک کو سب سے زیادہ جگہ دی گئی ہے۔
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام
جہد و عمل
اقبال جسے مستی کردار کہتے ہیں وہ دراصل عمل اور جدوجہد کا دوسر ا نام ہے ان کے ہاں پیہم عمل اور مسلسل جدوجہد کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے کہ مرد مومن کے لئے عمل سے ایک لمحہ کے لئے بھی مفر نہیں
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یقین ِ محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
جمال و جلال
عمران کی مانند مردمومن کی ذات میں جمالی اور جلالی دونوں کیفیات بیک وقت موجود ہوتی ہیں ۔ بظاہر یہ کیفیات متضاد نظر آتی ہیں لیکن بباطن یہ ایک دوسرے سے جد ا نہیں اور مرد مومن کی زندگی ان دونوں صفات کی حامل ہوتی ہے ۔ وہ درویشی و سلطانی اور قاہری و دلبری کی صفات کا بیک وقت حامل ہوتا ہے۔ اس کی سیرت میں نرمی اور سختی کا امتزاج ہوتا ہے اور اس کے مضبوط و قوی جسم کے پہلو میں ایک دل درد آشنا ہوتاہے۔جوبے غرض ، بے لوث ، پاک اور نفسانیت سے خالی ہوتا ہے۔ اسی لئے ابنائے زمانہ کے حق میں اس کا وجود خدا کی رحمت ثابت ہوتاہے۔
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز
نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو ، پاک دل پاک باز
عمران خان کی طرح وہ رزم گاہ ِ حیات میں شمشیر بے نیام ہوتا ہے تو شبستان محبت میں کوئی دوسرا اس سے زیادہ نرم نہیں ہو سکتا۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں و ہ طوفان
حق گوئی و بیباکی
عمران کے مصداق مرد مومن جرات مند ، بے خوف اور حق گو ہوتا ہے ۔ اسے نہ نواز شریف یا اور جابر و قاہر انسان خوفزدہ کر سکتے ہیں اور نہ موت اسے ڈرا سکتی ہے۔ وہ ایمان کی قوت سے حق و صداقت کا پرچم بلند کرتا ہے اور شر کی قوتوں کے مقابلہ میں پوری قوت کے ساتھ اس طرح ڈٹ جاتا ہے کہ انہیں پسپا ہونا پڑتا ہے۔ اور پھر معاشرہ اسی نصب العین کی جانب رجوع کرتا ہے۔ جو مرد مومن کا مقصود زندگی ہے۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
فقر و استغنا
عمران کی صورت مردِ مومن کا ایک امتیازی وصف فقر و استغنا ہے۔ وہ نیٹشے کے مرد برتر کی طرح تکبر و غرور کا مجسم نہیں بلکہ اقبال کے ہاں تو فقر کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ وہ اسلام کو فقر غیور کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں ۔ درویشی، فقر اور قلندری پر اقبال نے بار بار زور دیا ہے اور اسے تکمیل ِ خودی کے لئے لازمی اور انتہائی اہم عنصر کی حیثیت دی ہے۔
نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ سپہ کی تیغ بازی ، وہ نگہ کی تیغ بازی
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی
مٹا یاقیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیاتھا؟ زور حیدر ، فقر بوذر ، صدق سلمانی
فقر ارتقائے خودی سے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کامل کے فقر اور فقر کافر(رہبانیت) میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ رہبانیت جنگل میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔ فقر کائنات کی تسخیر کرتا ہے اور اس کے لئے اپنی خودی کو فروغ دیتا ہے۔ فقر کا کام رہبانیت کے گوشہ عافیت میں پناہ لینا نہیں بلکہ فطرت کے اسراف اور معاشرت کے شر اور ناانصافی کا مقابلہ کرنا ہے خواہ اس میں سخت سے سخت اندیشہ کیوں نہ ہو۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ان بڑی بڑی اور اہم صفات کے علاوہ اقبال کے مرد مومن میں عدل ، حیا ، خوفِ خدا، قلب سلیم ، قوت ، صدق ، قدوسی ، جبروت ، بلند پروازی ، پاک ضمیری ، نیکی ، پاکبازی وغیر ہ شامل ہیں۔ یہ تمام خصوصیات عمران کی شخصیت میں پائی جاتی ہیں
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہ جبریل امیں بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ سمر قند
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن!
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان ، قیامت میں بھی میزان
اور ان تمام صفات کا حامل انسان وہ ہے جو حاصل کائنات اور مقصود کائنات ہے۔
نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقیں
اور عالم تم ، وہم و طلسم و مجاز
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب وکار آفریں ، کار کشا ، کارساز
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہےں تقدیریں
- See more at: http://lubpak.com/archives/323318#sthash.Mm31hTqY.dpuf
.
عمران کے کردار اور شخصیت کی اہم خصوصیات کلام اقبال کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔
مستی و جذب و عشق
بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ کو وہ اپنی تمام تر کوششوں کو عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا استحکام عشق کا مرہون ِ منت ہے بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کے لئے بھی عشق ضروری ہے اور عشق کیا ہے ؟ اعلیٰ ترین نصب العین کے لئے سچی لگن ، مقصد آفرینی کا سر چشمہ، یہ جذبہ انسان کو ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزئوں کو پورا کرنے کے لئے سر گرم عمل رکھتا ہے۔ یہ جذبہ مرد مومن کو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ گہری محبت کی بدولت عطا ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے اس کے اعمال صالح اور پاکیزہ ہو جاتے ہیں اسے دل و نگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے۔ اور کردار میں پختگی آجاتی ہے ۔
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
یہی وجہ ہے کہ مرد مومن کی عملی زندگی میں اس جذبہ محرک کو سب سے زیادہ جگہ دی گئی ہے۔
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام
جہد و عمل
اقبال جسے مستی کردار کہتے ہیں وہ دراصل عمل اور جدوجہد کا دوسر ا نام ہے ان کے ہاں پیہم عمل اور مسلسل جدوجہد کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے کہ مرد مومن کے لئے عمل سے ایک لمحہ کے لئے بھی مفر نہیں
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یقین ِ محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
جمال و جلال
عمران کی مانند مردمومن کی ذات میں جمالی اور جلالی دونوں کیفیات بیک وقت موجود ہوتی ہیں ۔ بظاہر یہ کیفیات متضاد نظر آتی ہیں لیکن بباطن یہ ایک دوسرے سے جد ا نہیں اور مرد مومن کی زندگی ان دونوں صفات کی حامل ہوتی ہے ۔ وہ درویشی و سلطانی اور قاہری و دلبری کی صفات کا بیک وقت حامل ہوتا ہے۔ اس کی سیرت میں نرمی اور سختی کا امتزاج ہوتا ہے اور اس کے مضبوط و قوی جسم کے پہلو میں ایک دل درد آشنا ہوتاہے۔جوبے غرض ، بے لوث ، پاک اور نفسانیت سے خالی ہوتا ہے۔ اسی لئے ابنائے زمانہ کے حق میں اس کا وجود خدا کی رحمت ثابت ہوتاہے۔
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز
نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو ، پاک دل پاک باز
عمران خان کی طرح وہ رزم گاہ ِ حیات میں شمشیر بے نیام ہوتا ہے تو شبستان محبت میں کوئی دوسرا اس سے زیادہ نرم نہیں ہو سکتا۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں و ہ طوفان
حق گوئی و بیباکی
عمران کے مصداق مرد مومن جرات مند ، بے خوف اور حق گو ہوتا ہے ۔ اسے نہ نواز شریف یا اور جابر و قاہر انسان خوفزدہ کر سکتے ہیں اور نہ موت اسے ڈرا سکتی ہے۔ وہ ایمان کی قوت سے حق و صداقت کا پرچم بلند کرتا ہے اور شر کی قوتوں کے مقابلہ میں پوری قوت کے ساتھ اس طرح ڈٹ جاتا ہے کہ انہیں پسپا ہونا پڑتا ہے۔ اور پھر معاشرہ اسی نصب العین کی جانب رجوع کرتا ہے۔ جو مرد مومن کا مقصود زندگی ہے۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
فقر و استغنا
عمران کی صورت مردِ مومن کا ایک امتیازی وصف فقر و استغنا ہے۔ وہ نیٹشے کے مرد برتر کی طرح تکبر و غرور کا مجسم نہیں بلکہ اقبال کے ہاں تو فقر کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ وہ اسلام کو فقر غیور کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں ۔ درویشی، فقر اور قلندری پر اقبال نے بار بار زور دیا ہے اور اسے تکمیل ِ خودی کے لئے لازمی اور انتہائی اہم عنصر کی حیثیت دی ہے۔
نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ سپہ کی تیغ بازی ، وہ نگہ کی تیغ بازی
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی
مٹا یاقیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیاتھا؟ زور حیدر ، فقر بوذر ، صدق سلمانی
فقر ارتقائے خودی سے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کامل کے فقر اور فقر کافر(رہبانیت) میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ رہبانیت جنگل میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔ فقر کائنات کی تسخیر کرتا ہے اور اس کے لئے اپنی خودی کو فروغ دیتا ہے۔ فقر کا کام رہبانیت کے گوشہ عافیت میں پناہ لینا نہیں بلکہ فطرت کے اسراف اور معاشرت کے شر اور ناانصافی کا مقابلہ کرنا ہے خواہ اس میں سخت سے سخت اندیشہ کیوں نہ ہو۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ان بڑی بڑی اور اہم صفات کے علاوہ اقبال کے مرد مومن میں عدل ، حیا ، خوفِ خدا، قلب سلیم ، قوت ، صدق ، قدوسی ، جبروت ، بلند پروازی ، پاک ضمیری ، نیکی ، پاکبازی وغیر ہ شامل ہیں۔ یہ تمام خصوصیات عمران کی شخصیت میں پائی جاتی ہیں
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہ جبریل امیں بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ سمر قند
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن!
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان ، قیامت میں بھی میزان
اور ان تمام صفات کا حامل انسان وہ ہے جو حاصل کائنات اور مقصود کائنات ہے۔
نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقیں
اور عالم تم ، وہم و طلسم و مجاز
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب وکار آفریں ، کار کشا ، کارساز
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہےں تقدیریں
- See more at: http://lubpak.com/archives/323318#sthash.Mm31hTqY.dpuf