
رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع اور ڈیویڈنڈز کی مد میں پاکستان سے ڈالر کا اخراج دوگنا سے بھی زیادہ ہوگیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 کے جولائی تا فروری کے دوران منافع کا اخراج 103.94 فیصد اضافے کے ساتھ 1.55 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 76 کروڑ ڈالر تھا۔
یہ اضافہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کے اخراج پر عائد پابندیوں میں نرمی کی علامت ہے، تاہم اس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ برقرار ہے۔ اس وقت اسٹیٹ بینک کے ذخائر 11.14 ارب ڈالر ہیں، جو بڑھتی ہوئی درآمدات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے ناکافی تصور کیے جا رہے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ منافع کا اخراج خوراک کے شعبے سے 29 کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہا، جبکہ توانائی کے شعبے نے 23 کروڑ 30 لاکھ ڈالر اور مالیاتی شعبے (بشمول بینکنگ) نے 19 کروڑ 10 لاکھ ڈالر بیرون ملک منتقل کیے۔
پاکستان کو سالانہ تقریباً 25 ارب ڈالر بیرونی قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی کے لیے درکار ہوتے ہیں، جس میں 5 ارب ڈالر صرف سود کی مد میں شامل ہیں۔ حکومت بیرونی قرضوں کو رول اوور کرانے اور مزید قرضے لینے کے لیے کوشاں ہے تاکہ ادائیگیوں کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔
حکومت نے برآمدات میں اضافے کے لیے ’اڑان پاکستان‘ پروگرام کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت ملکی برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، تاہم اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ برآمدات میں نمایاں اضافے کے بغیر قرضوں کے بحران سے نکلنا مشکل ہوگا۔