فوجداری مقدمات، ملزم کو ضمانت دینے سے انکار کیلئے واضح ثبوت ضروری

2zamntthil.png


فوجداری مقدمات میں ملزم کو ضمانت دینے سے انکار کیلئے واضح ثبوت ضروری ہے,سپریم کورٹ نے ضمانت کے ایک مقدمہ میں قرار دیاہے کہ فوجداری مقدمات میں کسی ملزم کو ضمانت دینے سے انکار کرنے کے لیے استغاثہ کو واضح ثبوت پیش کرنا چاہیے کہ ملزم یا اس کا وکیل غیر ضروری التواء یا غیر متعلقہ درخواستوں کے ذریعے مقدمے کی سماعت میں تاخیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ضمانت سے انکار کا جواز بنایا جا سکے۔

قانون میں دی گئی آزادی سے ملزم کو محروم نہیں کیا جا سکتا، قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اپیل کنندہ روحان احمد کی اپیل منظور کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ ملزم کو گرفتار کیے ہوئے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، قانون کے مطابق ملزم کو کسی دوسرے شہری کی طرح قانونی تحفظ حاصل ہے اور قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیئے، ملزم کو قانون میں دی گئی آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے متعلقہ آفس کو اس حکمنامہ کی کاپی لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو بھیجنے کی ہدایت کی ہے تاکہ وہاں اس طرح کے معاملات میں فوجداری انصاف کو بہتر بنانے کے لیے اپنے چیف جسٹس کے سامنے پیش کرسکیں۔

گستاخانہ مواد شیئر کرنے کے ایف آئی اے کے مقدمہ کے ملزم روحان احمد نے لاہور ہائی کورٹ کے 22.اگست2023 کے حکمنامہ کے خلاف یہ اپیل دائر کی تھی۔

گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے فوجداری مقدمات میں ضمانت سے متعلق فیصلے میں کہا تھا کہ قانون کے تحت ٹرائل دو سال تک مکمل نہ ہو تو ملزم کو ضمانت کا حق ہے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ضابطہ فوجداری قانون میں ٹرائل میں تاخیرکی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، قانون کےتحت ٹرائل 2سال تک مکمل نہ ہوتوملزم کوضمانت کاحق ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جن قانونی وجوہات پرضمانت خارج ہوانہیں بنیاد بناکردوبارہ ضمانت نہیں دی جاسکتی، درخواست ضمانت واپس لینے پرخارج ہو تو اسی گراؤنڈ پر دوبارہ درخواست نہیں دی جاسکتی,ضابطہ فوجداری قانون کےتحت ٹرائل میں تاخیرکی بنیادپرضمانت دی جاسکتی ہے۔
 

Back
Top