Fazail Mughal
Politcal Worker (100+ posts)
چند روزقبل تھریڈ پر حمزہ علی عباسی علی کے ایک پروگرام کا کلپ نظر سے گزرا جس میں اُنہوں نے قادیانیت کے مسئلہ پر لب کشائی کی جرات کی۔ اُن کی گفتگو کا مقصد جہاں تک میں سمجھ پایا یہ تھا کہ ریاست قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی مجاز ہے یا نہیں اس بات سے قطع نظر اُن کا موقف درست تھا یا غلط میں حمزہ علی عباسی کو اُن کی اس دلیری پر مبارک باد کا مستحق سمجھتا ہوں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عدم برداشت اپنے عروج پر ہو وہاں ایسے نازک موضوع کو چھیڑنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔
میری ذاتی رائے جو غلط بھی ہو سکتی ہے کسی بھی متنازعہ یا غیر متنازعہ موضوع پر گفتگو کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ گفتگو کا دروازہ صرف وہ گروہ بند کرنے کی کوشش کرتا ہے جو حق پر نا ہو یا جس کا استدلال کمزور ہو اور وہ تشدد سے اپنی بات منوانا چاہتا ہو۔
اس سے پہلے ریاست کے اس حق پر بات کی جائے کہ وہ کسی گروہ یا عقیدے کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے یا نہیں ہمیں بات کرنی چاہیے کے ریاست کا فیصلہ انصاف پر مبنی تھا یا نہیں۔
سورۃ الاحزاب میں الل تعالیٰ فرماتے ہیں لوگو!محمدﷺ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں
قرآن پاک کی یہ آیت اتنی واضح ہے کہ اس کے مفہوم میں کسی ہیر پھیر کی گنجائش نہیں اگر چہ کرنے والوں نے بہت سے تاویلیں پیش کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن کوئی بھی سلیم العقل انصاف پسند انسان ان تاویلات کو قبول نہیں کر سکتا۔
اسی موضوع پر نبی پاک ﷺ کی درجنوں صحیح ترین اور مستند علیہ روایات موجود ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی
اسی طرز کی سینکڑوں احادیث مبارکہ صحابہ اکرام رضی اللہ نے نبی صلی علیہ وسلم سے روایت کی ہیں اور بکثرت محدثین نے ان کو بہت قوی سندوں سے نقل کیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے مختلف مواقع پر، مختلف طریقوں اور مختلف الفاظ سے ساتھ اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور ہر دعویٰ گر دجال و کذاب ہیں۔
قرآن و سنت کے بعد تیسرے درجے میں اہم ترین حیثت صحابہ اکرام رضی اللہ کے اجماع کی ہے۔ مذہب اور تاریخ کا مشترکہ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کے نبی پاک ﷺ کے بعد صحابہ اکرام رضی اللہ میں خلافت، لشکرِ اُسامہ رضی اللہِ، مانعین زکواۃ، بغاوت و ارتداد اور دیگر مسائل کو لے کر صحابہ اکرام رضی اللہ میں معمولی و غیر معمولی اختلافات پیدا ہوئے لیکن یہ بات تمام معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جن لوگوں نے ان کی نبوت تسلیم کی اُن سب کے خلاف صاحبہ اکرام رضی اللہ نے بالا اتفاق جنگ کی۔
اجماعِ صحابہ کے بعد چوتھے نمبر پر مسائلِ دین میں جس چیز کو حجت کی حیثت حاصل ہے وہ دورِ صحابہ کے بعد کے علماءِ اُمت کا جماع ہے جس میں پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک ہر زمانے کے اور پوری دُنیاِ اسلام میں ہر ملک کے علماء اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا۔ اور یہ کہ جو کوئی بھی اس منصب کا دعویٰ کرے یا اس کو مانے وہ مسلم نہیں ہو سکتا۔
میری حقیر رائے میں جن معملات پر اللہ اور اُس کے رسول پاک نے فیصلہ فرما دیا اور صحابہ اکرام رضی اللہ کا اجماع بھی ہو اُس پر مذید بحث و مباحثہ کی گنجائش نہیں۔ ہاں اس بات پر مباحثہ ضرور ہونا چاہیے کہ موجودہ قادیانیوں کو پاکستان کے قومی دھارے میں کس طرح شامل کیا جائے۔
راقم الحروف کے خیال میں مرزا غلام احمد قادیانی کی حیات کے زمانے تک اگر مسلم ریاست قائم ہوتی تو اُن کے اور اُن کے پیروکاروں کے ساتھ مسیلمہ کذاب والا معملہ ہونا چاہیے تھا لیکن موجودہ قادیانیوں کے ساتھ غیر مسلم اقلیت سمجھا جانا چاہیے اور کسی بھی قسم کو ناروا سلوک،تشدد، نسلی امتیاز یا ظلم و ستم جائز نہیں۔ اُنہیں پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح مکمل آئینی و انسانی حقوق حاصل ہونے چاہیے۔
حمزہ علی عباسی یا راقم الحروف سمیت تمام افراد جو بحیثت انسان قادیانیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اُنہیں قادیانیوں کو مشورہ دینا چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان ہونے پر اسرار نہ کریں بلکہ غیر مسلم اقلیت کی حیثت سے پاکستانی قوانین کے تحت اپنے حقوق کے حصول پر اسرار کریں۔ ہاں اگر وہ مسلمان کہلانے پر بضد ہیں تو اجتماعی طور پر اُن کے سُر خیل، لیڈر یا رہنما میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے یہ اعلان کریں کے وہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور مرزا غلام احمد کو نبی،رسول، مسیحِ مَوعُود یا مثیلِ مسیح نہیں سمجھتے۔
راقم الحروف موجودہ قادیانیوں کے اس استدلال سے اتفاق نہیں کرتا ہے کہ بہت سے دوسرے گروہ، افراد اور فرقہ اس سے کہیں زیادہ باطل عقائد اور دعویٰ کے حامل ہیں اُن کے ساتھ قادیانیوں جیسا معملہ کیوں نہیں۔ اگرچہ قادیانیوں کے اس استدلال میں کافی وزن ہے کیونکہ اُمت کے بہت سے گروہ تقیہ کے پردے میں نبوت و رسالت تو ایک طرف بہت سی شخصیات کو خدا تک بنائے بیٹھے ہیں لیکن شرعی طور پر یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ دُنیا میں جو شخص کلمہ شہادت زبان سے ادا کرے ہم اُسے مسلمان تسلیم کرنے اور مسلمانوں والا معملہ کے پابند ہیں جب تک کے وہ کھلم کھلا صریح کفر کا ارتقاب نہ کرے۔
راقم الحروف کا ارادہ کسی بھی قسم کے انتشار کو ہوا دینا نہیں اس وجہ سے میں مرزا غلام احمد کی تحریروں کے حوالے دینے سے اجتناب کر رہا ہوں لیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ مرزا غلام احمد نبوت کے دعویٰ دار تھے اور یہ بات ہر باشعور اور صاحبِ علم قادیانی جانتا ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود راقم الحروف کا خیال ہے کہ موجودہ قادیانیوں سے کسی بھی قسم کا ناروا سلوک، نسلی امتیاز، تعصب یا زیادتی جائز نہٰں اور
اُنہیں تمام انسانی حقوق حاصل ہونے چاہیے۔
یہاں بہت سے دوست یہ استدلال پیش کریں گے کہ قادیانی ملک و ملت کی جڑھیں کھود رہے ہیں اور اجتماعی غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں راقم الحروف اس استدلال سے متفق نہیں کیونکہ ان حرکات کا ارتکاب بہت سے سیاسی اور مذہبی گروہ مملکت خداداد میں فرما رہے ہیں اور اس کو روکنا حکومتِ وقت کا کام ہے کسی بھی کمیونٹی کو ایسے الزامات لگا کر اجتماعی طور پر نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔
میری ذاتی رائے جو غلط بھی ہو سکتی ہے کسی بھی متنازعہ یا غیر متنازعہ موضوع پر گفتگو کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ گفتگو کا دروازہ صرف وہ گروہ بند کرنے کی کوشش کرتا ہے جو حق پر نا ہو یا جس کا استدلال کمزور ہو اور وہ تشدد سے اپنی بات منوانا چاہتا ہو۔
اس سے پہلے ریاست کے اس حق پر بات کی جائے کہ وہ کسی گروہ یا عقیدے کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے یا نہیں ہمیں بات کرنی چاہیے کے ریاست کا فیصلہ انصاف پر مبنی تھا یا نہیں۔
سورۃ الاحزاب میں الل تعالیٰ فرماتے ہیں لوگو!محمدﷺ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں
قرآن پاک کی یہ آیت اتنی واضح ہے کہ اس کے مفہوم میں کسی ہیر پھیر کی گنجائش نہیں اگر چہ کرنے والوں نے بہت سے تاویلیں پیش کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن کوئی بھی سلیم العقل انصاف پسند انسان ان تاویلات کو قبول نہیں کر سکتا۔
اسی موضوع پر نبی پاک ﷺ کی درجنوں صحیح ترین اور مستند علیہ روایات موجود ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی
اسی طرز کی سینکڑوں احادیث مبارکہ صحابہ اکرام رضی اللہ نے نبی صلی علیہ وسلم سے روایت کی ہیں اور بکثرت محدثین نے ان کو بہت قوی سندوں سے نقل کیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے مختلف مواقع پر، مختلف طریقوں اور مختلف الفاظ سے ساتھ اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور ہر دعویٰ گر دجال و کذاب ہیں۔
قرآن و سنت کے بعد تیسرے درجے میں اہم ترین حیثت صحابہ اکرام رضی اللہ کے اجماع کی ہے۔ مذہب اور تاریخ کا مشترکہ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کے نبی پاک ﷺ کے بعد صحابہ اکرام رضی اللہ میں خلافت، لشکرِ اُسامہ رضی اللہِ، مانعین زکواۃ، بغاوت و ارتداد اور دیگر مسائل کو لے کر صحابہ اکرام رضی اللہ میں معمولی و غیر معمولی اختلافات پیدا ہوئے لیکن یہ بات تمام معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جن لوگوں نے ان کی نبوت تسلیم کی اُن سب کے خلاف صاحبہ اکرام رضی اللہ نے بالا اتفاق جنگ کی۔
اجماعِ صحابہ کے بعد چوتھے نمبر پر مسائلِ دین میں جس چیز کو حجت کی حیثت حاصل ہے وہ دورِ صحابہ کے بعد کے علماءِ اُمت کا جماع ہے جس میں پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک ہر زمانے کے اور پوری دُنیاِ اسلام میں ہر ملک کے علماء اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا۔ اور یہ کہ جو کوئی بھی اس منصب کا دعویٰ کرے یا اس کو مانے وہ مسلم نہیں ہو سکتا۔
میری حقیر رائے میں جن معملات پر اللہ اور اُس کے رسول پاک نے فیصلہ فرما دیا اور صحابہ اکرام رضی اللہ کا اجماع بھی ہو اُس پر مذید بحث و مباحثہ کی گنجائش نہیں۔ ہاں اس بات پر مباحثہ ضرور ہونا چاہیے کہ موجودہ قادیانیوں کو پاکستان کے قومی دھارے میں کس طرح شامل کیا جائے۔
راقم الحروف کے خیال میں مرزا غلام احمد قادیانی کی حیات کے زمانے تک اگر مسلم ریاست قائم ہوتی تو اُن کے اور اُن کے پیروکاروں کے ساتھ مسیلمہ کذاب والا معملہ ہونا چاہیے تھا لیکن موجودہ قادیانیوں کے ساتھ غیر مسلم اقلیت سمجھا جانا چاہیے اور کسی بھی قسم کو ناروا سلوک،تشدد، نسلی امتیاز یا ظلم و ستم جائز نہیں۔ اُنہیں پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح مکمل آئینی و انسانی حقوق حاصل ہونے چاہیے۔
حمزہ علی عباسی یا راقم الحروف سمیت تمام افراد جو بحیثت انسان قادیانیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اُنہیں قادیانیوں کو مشورہ دینا چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان ہونے پر اسرار نہ کریں بلکہ غیر مسلم اقلیت کی حیثت سے پاکستانی قوانین کے تحت اپنے حقوق کے حصول پر اسرار کریں۔ ہاں اگر وہ مسلمان کہلانے پر بضد ہیں تو اجتماعی طور پر اُن کے سُر خیل، لیڈر یا رہنما میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے یہ اعلان کریں کے وہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور مرزا غلام احمد کو نبی،رسول، مسیحِ مَوعُود یا مثیلِ مسیح نہیں سمجھتے۔
راقم الحروف موجودہ قادیانیوں کے اس استدلال سے اتفاق نہیں کرتا ہے کہ بہت سے دوسرے گروہ، افراد اور فرقہ اس سے کہیں زیادہ باطل عقائد اور دعویٰ کے حامل ہیں اُن کے ساتھ قادیانیوں جیسا معملہ کیوں نہیں۔ اگرچہ قادیانیوں کے اس استدلال میں کافی وزن ہے کیونکہ اُمت کے بہت سے گروہ تقیہ کے پردے میں نبوت و رسالت تو ایک طرف بہت سی شخصیات کو خدا تک بنائے بیٹھے ہیں لیکن شرعی طور پر یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ دُنیا میں جو شخص کلمہ شہادت زبان سے ادا کرے ہم اُسے مسلمان تسلیم کرنے اور مسلمانوں والا معملہ کے پابند ہیں جب تک کے وہ کھلم کھلا صریح کفر کا ارتقاب نہ کرے۔
راقم الحروف کا ارادہ کسی بھی قسم کے انتشار کو ہوا دینا نہیں اس وجہ سے میں مرزا غلام احمد کی تحریروں کے حوالے دینے سے اجتناب کر رہا ہوں لیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ مرزا غلام احمد نبوت کے دعویٰ دار تھے اور یہ بات ہر باشعور اور صاحبِ علم قادیانی جانتا ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود راقم الحروف کا خیال ہے کہ موجودہ قادیانیوں سے کسی بھی قسم کا ناروا سلوک، نسلی امتیاز، تعصب یا زیادتی جائز نہٰں اور
اُنہیں تمام انسانی حقوق حاصل ہونے چاہیے۔
یہاں بہت سے دوست یہ استدلال پیش کریں گے کہ قادیانی ملک و ملت کی جڑھیں کھود رہے ہیں اور اجتماعی غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں راقم الحروف اس استدلال سے متفق نہیں کیونکہ ان حرکات کا ارتکاب بہت سے سیاسی اور مذہبی گروہ مملکت خداداد میں فرما رہے ہیں اور اس کو روکنا حکومتِ وقت کا کام ہے کسی بھی کمیونٹی کو ایسے الزامات لگا کر اجتماعی طور پر نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔
Last edited by a moderator: