قلم کی جسارت ..ڈاکٹر وقاص نواز

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
"کہ وہ سحر تو ہم بھی دیکھیں گے" (سال کے آخری دن پر سال 2024 کی روداد )یہ سال بھی ختم ہونے کو ہے - اس مارشل لاء زدہ ' آمریت کا آسیب زدہ اور نام نہاد جمہوری ملک کی جمہوریت کیلئے یہ سال بھی آمریت سے داغدار اور فسطائت سے بدبودار ثابت ہوا - اس سال بھی جمہور "لنگور " سمجھے گیے اور آمر "ناصح" اور "مشکل کشا" کہلواۓ جاتے رہے - سال کا آغاز جنوری میں اس چوری سے ہوا جس میں کروڑوں انسانوں کا پسندیدہ نشان چھین لیا گیا - جے ایف تھنڈرز ' ٹینکوں اور میزائلوں والے کرکٹ کے "بلے" سے ڈرتے رہے اور ترازو اور چوغوں والوں نے اس ڈر کے ماتحت وہ بلا چھین لیا اور مطمئن ہوگیے کہ اب چھکا نہی لگے گا - لیکن بلا ہی چھینا تھا ' امید تو نہیں - سو پھر فروری آیا - الیکشن ہویے تو مائنس کرنے والوں نے دیکھا کہ عوام جب چاہتے ہیں تو کیسے ضرب دیتے ہیں- - چھیننے والوں نے خود کو محبتیں لٹانے والے کے سامنے بے بس پایا - ریڈیو ' توا ' چمچ ' پیالہ ' بینگن' چارپائی الغرض وہ سب نشان جن کو کسی کی تضحیک کیلئے الاٹ کیا گیا تھا ' ووہی شان بن گیے - مزاحمت کی پہچان بن گیے - شیر اور تیر کو پریشان کر گیے - جب یہ برداشت نہ ہوا تو چھیننے والے تو "پیشہ ور" تھے - سو وہ محافظ سے "سارق" بن گیے- " نو" کو "نو سو" بھی بنایا - لکھ کو ککھ بھی بنایا - ووٹ گننے والے آر او کے دفتر چھاؤنی بن گیے - رہبر دیکھتے دیکھتے رہزن بن گیے - عوام کے فارمز کو مسخ کر ڈالا - "ڈار" کو "خواجہ" سے بدل ڈالا - لیکن فارم تھا کوئی دل تو نہیں ' جس پر اپنے کرتوتوں کی سیاہی سے کچھ بھی لکھ دیتے - عوام نے اپنے دل کو فارم 45 بنالیا اور ان کے دلوں پر ایک قیدی نے ملک کے چوبیسویں وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا اور وہاں حکمرانی کرنے لگا - فروری کا مہینہ اس شکست ریخت کا مہینہ تھا جس میں مان اور محبت کی وہ وہ عمارتیں منہدم ہوئیں جن کی بنیاد ہمارے بچپن میں ڈلی تھی اور جن کو ہم اپنے لڑکپن اور جوانی سے ملی نغموں اور ترانوں سے سجاتے آرہے تھے - 2024 گزرتا گیا اور ایسا بھی منظر دیکھنے کو ملا جب منصف خود انصاف کے سوالی ہوگیے - رکھوالے موالی ہوگئے - منصفوں کی خوابگاہ اور بستر پبلک ہوگیے - ان کے گھر والے لاپتہ اور مسنگ ہوگیے - ان کے بہنوئی تشدد زدہ ہوگیے - ان کی ڈگریاں فیک اور جعلی ہوگئیں - انہوں نے ہمت اکٹھی کی اور اپنے بڑے منصف کو خط لکھ ڈالا - اس نے اس خط کو کیا پڑھنا تھا ' اس خط پر ایک اور خط لکھ ڈالا - یہ خط وکتابت معمول ہوگئی - اس سب میں وہ اصلی خط معدوم ہوگیا اور بوٹ کے وزن سے عدل کا ترازو ایک مرتبہ پھر مخدوش ہوگیا - وقت گزرتا گیا - اقلیت اکثریت پر حاکم ہوگئی - آمریت جمہور کی غاصب ہوگئی - صحافت آمریت کی باندی ہوگئی - عدالت خالی خط و کتابت کی عادی ہوگئی - خوشامد پالیسی بن گئی - مزاحمت غداری بن گئی - اختلاف جرم بن گیا - تنقید تنبیہ بن گئی - نقاد ڈیجیٹل دہشت گرد بن گیا - شاعر آتنک واد بن گیا - لکھاری انتشاری کہلواے - پردیسی غدار قرار پاے - سوتیلے اور بے کار قرار پاے - جب یہ سب کرکے بھی تعفن چھپ نہ سکا - عوامی مینڈیٹ کی لاش بھبھوکے مارنے لگی اور بدبو ماحول کو آلودہ کرنے لگی تو پھر آئین کو ہی مسخ کرنے کی پرانی "ہابی" شروع ہوئی - - جنہوں نے آئین کو متعدد دفعہ پھاڑ ڈالا ہو ' ان کیلئے اس پر بس ہگنا اور اس کو بدلنا کونسا کوئی مشکل مرحلہ ہوتا - سو اب ایک نیا کھیل شروع ہوا - ہمیشہ کی طرح عدلیہ نے اس ہگنے کی سہولت دینے کیلئے اپنا چوغہ بچھادیا - میڈیا بوٹوں میں تسمے ڈالنے کیلئے اپنا قلم سجا لایا اور اپنا اخبار ٹشو پیپر کے طور پرپیش کردیا جس سے ہگنے والے نے بعد میں اپنے ہاتھ پونچھنے تھے - - آئین نے بدلا تو اسمبلی میں جانا تھا ' پر یہ کیا کہ لوگوں نے اپنی بہنیں بیٹیاں چھپانا شروع کردیں - حرم کو قفل لگانے پڑے - مقیم کو مسافر ہونا پڑا - تاجر کو جلاوطن ہونا پڑا - - لیکن پیشہ ور کیلئے نقب زنی کٹھن کب تھی - اس سب حفظ ماتقدم کے باوجود چادر پامال ہوئی - چار دیواری مسمار ہوئی - بیٹے اغوا ہویے - ڈائلسیز سے مریض لاپتہ ہویے- ایسے لگ رہا تھا کہ آئین نہیں بدلہ جارہا بلکہ ملک فتح ہورہا ہے جہاں فاتح مفتوح کو مال غنیمت سمجھ کر زد کوب بھی کرلیتا ہے ' اٹھا بھی لے جاتا ہے اور گرفتار بھی کرلیتا ہے - یہ سب ہوا اور پھر آئین بھی پامال ہوگیا جس کے نتیجے میں عدلیہ معذور ہوگئی - لیکن معذوری کے باوجود بھی اس نے اپنا وعدہ ضرور ایفاء کیا - لنگڑاتے ہویے ' ہکلاتے ہویے ' پھوٹی آنکھوں سے بھی ' ٹوٹے ہاتھوں سے بھی اس معذور عدلیہ نے آئین پر کی گئی غلاظت کو اپنے چوغے سے ڈھانپ ڈالا اور ہمیشہ کیلئے اس تعفن میں غرق ہوگئی - صحافت نے بھی وعدہ نبھایا - بدبو کی وجہ سے ناک کی جگہ منہ سے سانس لیتی رہی ' اور اس غلاظت کو "نفاست " اس گوبر کو "گجریلا " اور اس "بلغم " کو "مقیت شہد " ثابت کرنے میں پیش پیش رہی - جیسے جیسے یہ سال گزرتا جارہا تھا ' نوجوان نسل کی بچپن کی افسانوی محبت کی کچی عمارتیں اور تیزی سے اب منہدم ہورہی تھیں کیوں کہ آگہی کے مینار بہت تیزی سے بلند ہورہے تھے اور ان کے اوپر کی مطا لعہ پاکستان کی پڑھائی گئی کچی چھتیں ڈھے رہی تھیں - ادھر انٹرنیٹ سست ہورہا تھا ' ادھر شعور کی رفتار بجلی کی سی تیز ہورہی تھی - ادھر زبانیں بند ہورہی تھیں ' ادھر ان ہی آوازوں کی گونج سے یورپ اور امریکا تک گونج رہا تھا - مہینے بدلتے رہے - اب سال 2024 اپنے آخری حصے میں تھا - جمہور کو اب بھی اس نظام سے انسانیت کی ہلکی سی امید برحال تھی - دوسری طرف نظام عریاں تو ہوگیا تھا پر پھر بھی ستر کا کچھ حصہ ڈھکا ہوا تو تھا - اس سب میں نومبر آگیا - جمہور کی ہلکی سی امید اس کو شہر اقتدار میں احتجاج کیلئے لے گئی جہاں نظام نہیں ایک طاغوت سے اس کا سامنا ہوا جس نے جمہور سے امید کی وہ ہلکی سی کرن بھی چھین کر وہاں چوک میں گھپ اندھیرا کردیا - لیکن اس اندھیرے میں بھی مہذب دنیا نے اس ملک کی جمہور کو تیس فٹ اونچے کنٹینر سے لٹکتا دیکھا -اور پھر ...."ٹھا...ٹھا...ٹھا...ٹھاٹھاٹھا.....ٹشوں..ٹھا....فضا گولیوں کی ان خوفناک آوازوں سے گونج رہی تھی لیکن یہ گولیاں محض جمہور کو ہی چھنی نہیں کر رہی تھیں کیوں کہ گولیوں کو بھی معصوم پر یوں برسنے میں شرم محسوس ہوتی تھی - سو وہ اپنی اس شرم کی وجہ سے نظام کے جسم پر موجود کپڑے کا آخری چیتھڑا بھی اڑا کر ساتھ لے جارہی تھیں- نظام اب بالکل ننگا تھا - بے ڈھنگا تھا - عریاں تھا - لفنگا تھا - اس کے ستر پر جگہ جگہ لہو کے چھینٹے تھے اور وہ ہسٹریا کی کیفیت میں قہقہے لگا رہا تھا - صحافت پھر ٹشو بردار تھی اور نظام کی شرمگاہ سے لہو صاف کر رہی تھی - عدالت پھر چغہ بچھاں تھی - لنگڑاتی ' ہکلاتی ہوئی نظام کا سیاہ چہرہ اپنے کالے چوغے سے صاف کر رہی تھی جس کی سیاہی اب اس چوغے کے پیچھے سے اور بھی مکروہ لگ رہی تھی - - انسان مجروح تھے ' ' مر چکے تھے' لاپتہ تھے ' معتوب تھے - معدوم تھے ' نامعلوم تھے جو بھی تھے پر اب بس ایک میم بن کر اسی صحافت ' عدالت اور سیاست کی تضحیک کا گھر بنے ہوے تھے - نظام کے اس بے لگام کھیل میں اب دسمبر آگیا - آمریت نے جمہور کو سزا دے دی کہ "عدالت تو پہلے ہی معذور اور بیمار ہے ' تو یہ کام بھی ہم ہی بدرجہ اتم کرے دیتے ہیں" - یوں آرڈر قانون بن گیا - چھاؤنی عدالت بن گئی - پتلون لہرانا دس سال سزا کا جرم بن گیا -اور پتلون دشمن کے گھر چھوڑ آنا قاضی بننے کا معیار اور بھرم بن گیا -مجسمے توڑنے والوں کیلئے سالوں کی قید کے پروانے جاری ہوگئے- اور ملک توڑنے والے دستخط کرکے ان پروانوں کے لکھاری ہوگیے - مور چوری کرنے والا بلڈی سویلین عبرت کا سفر بن گیا - اور جمہور کا ووٹ چوری کرنے والا نجات دہندہ اور پریس کانفرنس کا مقرربن گیا - یوں اشک زدہ 2024 کا سورج بھی غروب ہوگیا - لیکن شفق پر اب بھی ایک سرخی چھوڑ گیا - یہ سرخی امید اور شعور کی آتشی لہر کی ہے - کہ تاریکی جب گھپ ہوجاے تو نوید نئی سحر کی ہے اندھیری تو ہے پر جو نہ کٹے یہ وہ رات نہیں ہے طلوع سحر پاس تو نہیں' پر کوئی بہت دور کی بات نہی ہے - وہ سحر تو آنی ہے وہ سحر تو ہم بھی دیکھیں گے کہ کتاب کی یہ بات ہے ' فقط کوئی روداد نہی ہے کہ سانچ کوئی آنچ نہیں ہے مغرور کی کوئی ذات نہی ہے تو آج بھی اپنی بات ووہی ہے کہ وہ سحر تو ہم بھی دیکھیں گےکہ وہ سحر تو ہم بھی دیکھیں گے "قلم کی جسارت وقاص نواز " #PakistanUnderFascism------------------------------------a

Image




DES6CP-PQ4UC9i2w.jpg
 
Last edited by a moderator:

Back
Top