مایوسیاں اور انکا تدارک

maksyed

Siasat.pk - Blogger
مایوسیاں اور انکا تدارک ۔۔۔.....از : شمس جیلانی

قر آن کہہ رہا ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہو تا۔لیکن جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں۔ تو مایوسیاں ہی ما یوسیاں نظر آتی ہیں ۔ آخر کیوں ہم نے بہت دفعہ اس کیوں پر غور کیا، تب کہیں جاکر اس کی وجہ دھونڈ پا ئے کہ یہاں معاملہ مشروط ہے اور وہ شرط کیا ہے کہ مسلمان اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہو تا۔ پھر ہم نے مسلمان کی صفات پر غور کرنا شروع کیا تو مسلمان کا وصف یہ سامنے آیا کہ مسلمان نام ہے ۔ خدا کے سامنے خود کی اور خودی کی اس طرح نفی کر نا اور راضی بہ رضا ہو جانا ،جیسے کہ غسل دینے والے کہ ہاتھ میں مردہ ،وہ اس کو جس طرف کروٹ دلوانا چا ہے غسل کے لیئے الٹ پلٹ کرنا چاہے اس حالت پر راضی رہے۔

مگر اس سے میں یہ بین السطور راز چھپا ہوا ہے کہ وہ اپنی اس چھوٹی سی زندگی میں جو ہمارے لیئے امتحان گاہ بنا ئی گئی ہے ،اس میں اس طرح رہے کہ کو ئی لمحہ، کو ئی پیسہ، کوئی صلا حیت اس طرح استعمال نہ ہو جو ہمارے نامہ اعمال میں بھلائی کہ کھاتے میں نہ لکھی جا ئے ۔اور اس کے لیئے اپنی پو ری صلا حیتوں کو استعمال کر تا رہے۔ جب ہم اس وصف کو من حیثیت القوم اپنے اندر ڈھونڈتے ہیں ۔ تو ان میں سے کو ئی وصف بھی نہیں پاتے ،مسلمانوں جیسی کوئی بھی خوبی ہم میں نہیں نظر آتی ۔قصہ مختصر جب ہم نے اس معیار پر خود کوپرکھنے کی کو شش کرتے ہیں ،تو مایوسی ہی ما یو سی ہو تی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آجکل مایوسیوں نے ہمیں گھیرا ہوا ہے۔ یہ ہماری ان برائیوں کالازمی نتیجہ ہے جو من حیثیت القوم ہم میںدر آئی ہیں ؟

اگر ہم تاررییخ کو دیکھیں تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ ایسی قوموں کو جو کہ اس کی دنیا کے لیئے مفید نہیں ہوتیں، ان کو یا تو معزول کردیتا ہے یا پھر صفحہِ ہستی سے مٹادیتاہے۔ ممکن ہے کہ آپ لوگ کہیں کہ کیا ملا ئیت کی باتیں ہمیں سنا رہے ہو، ملا ئیت نے تو ہمیں اس نہج پرپہو نچا یا ہے؟ اور کیا تم بھی انہیں میں سے تو نہیں ہو؟

اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں اور ہر گز نہیں ؟ ایک مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ رہنما ئی کے لیئے قر آن اور مجسم قر آن کی طرف کی دیکھے۔ یہاں قر آن تو سمجھ میں آپکی آگیا ہو گا ۔مگر مجسم قر آن یہ شاید بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہ آیا ہو ۔ مجسم قر آن وہ ذات ِ گرامی (pbuh) ہے؟جنہوں نے سب سے پہلے خوداپنے اوپر قر آن کو جاری اور ساری کر کے دکھا یا؟ پھر ان کواپنی رہنما ئی کے لیئے منبہ مان کر تمام صحابہ کرام (رض)نے انہیں اپنا یا، جس سے وہ جما عت عمل میں آئی جس نے اس نظام کو چلانے کے لیئے بطور مشینری خود کو پیش کیا ۔ جس کا کامیاب مظاہرہ حضور (pbuh) کی مدنی زندگی میں نظر آتا ہےکہ ان لوگوں (رض) وہ کچھ کردکھا یا ، جوکہ ان سے پہلے کوئی بھی جماعت عملی طور پر کر کے نہیں دکھا سکی ۔ زیادہ تر اچھے لوگ تھیوری تک رہے، مگر دنیا سے اس پر عمل نہیں کرا سکے۔

اسی بنا پر ایک مصنف نے جو دنیا کے سو مشاہیر پر کتاب لکھی ہے ،اس میں اس نے حضور (pbuh)کونمبر ایک پر رکھا۔ کیونکہ انہوں (pbuh) نے اپنی مدنی زندگی میں اس کے تحت حکومت چلا کر دکھا ئی ۔ حالانکہ وہ خود دوسرے عقیدے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ تعلیمات یوں تو پورے قر آن میں پھیلی ہو ئی ہیں ۔ مگر لب ِ لباب ایک جگہ دیکھنا چاہیں تو سورہ المومنون کی آیت نمبر ایک سے دس تک دیکھ جا ئیے۔ جن مین تمام کامیابیوں کا راز چھپا ہوا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ زور جو ہے وہ وقت کے صحیح استعمال پرہے۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس پر عاملوں کی جگہ جنت الفردوس فردوس ہے جو تمام جنتوں سے افضل ہے۔

جب حضرت عائشہ (رض) سے حضور (pbuh) کے خلق کے بارے پوچھا گیا تھا تو ان کا ارشاد تھا کہ وہ قرآن تھا اور پھر یہ دس آیتیں انہوں نے اس موقعہ پر پڑھ کر سنا ئی کہ وہ ان پر عامل تھے۔ میرا مشورہ ہے کہ کسی ایک پر تکیہ نہ کرکے ان آیات کو آپ تمام تفا سیر کے ساتھ پڑھیں ،تو آپ کی آنکھیں کھل جا ئیں گی۔
موجودہ دور میں اس شدت پسندی کی ابتدا پہلے ایک فرقے نے کی اور جلا دوسپر پاور ز کی باہمی چپقلش سے ملی۔ اس کے بعد ان مدرسوں کے علما ءآلہ کار بنے۔ جو کہ تیل کے ریال یا امریکی ڈالر پر عیش کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔ اگر ہمارے علماءاسوحسنہ پر عمل کر تے تو اپنے ان داتاؤں کے حکم پر کبھی دو سپر پا ور کے ٹکرا ؤ کو جہاد کا درجہ نہ دیتے، اور آج ہم جو عزاب بھگت رہے ہیں نہ بھگت رہے ہوتے؟
کیونکہ اس کے نتیجہ میںاب بلا امتیا ز ہر فرقے اور ،ہر بندے کا معیار یہ ہے کہ اگر اپنا آدمی غلط بھی کرے تو صحیح ہے؟

جبکہ ایک مکتبہ فکر، نے وہ فکر پیدا کی ہے کہ ملت اسلامیہ پا رہ پا رہ ہو کر رہ گئی ہے۔ پہلے اہل تشیع معتوب ہو ئے، اور ان کا قتل ِ عام شروع ہوا، اس وقت دوسرے فرقہ ان کے ہمنوا بنے یا تما شائی رہے۔ پھر دوسرے فرقے اس کا شکار ہو ئے، اور اب یہ عالم ہے کہ نہ گھر محفوظ ہے، نہ بازار ۔ نہ درسگا ہیں اور نہ مساجد محفوظ ہیں نہ مزارات۔ رہ گئیں امام با ر گا ہیں وہ تو پہلا شکار تھیں

اسلام ایک پو را پیکج ہے اور اللہ کا تقاضہ ہے کہ پوری طرح اسلام دا خل ہو جا ؤ، ایسے کہ تمہا را جینا اور مر نا صرف اللہ کے لیئے ہو کو ئی ذاتی خواہش نہ ہو تب تم مسلمان کہلا سکتے ہو اور اسلام سے مستفید ہوسکتے ہو ،ورنہ نہیں۔ دوسری صورت میں اس کے غضب کے مستحق بنو گے، بجا ئے رحمت کے ۔اور اس نے فتنہ کو قتل سے بھی بڑا جرم قرارر دیا ہے اور ایک آیت میں تو یہاں تک فرما دیا کہ اگر تم صرف دو چیزیں چھوڑ دو تو تمہیں جنت مل جا ئیگی، ایک اپنی بڑائی چا ہنااور دوسرے فتنہ پیدا کر نا ۔ آئیے ہم سب اپنے گریبان میں جھانکیں اور قر آن اور اسوہ حسنہ کی طرف واپس آئیں تا کہ ہم عذاب سے نکل سکیں ۔ واضح رہے کہ اس کے لیئے صرف پنج وقتہ نما زیں اور روزہ رکھنا ہی کافی نہیں اس کے لیئے معاملات بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے اسلام کے پانچ ستون۔
 

Back
Top