مشترکہ مفادات کونسل کا دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا منصوبہ مسترد،

screenshot_1745863041018.png


وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کے منصوبے کو مسترد کر دیا گیا۔ اس اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے متعدد اہم فیصلے کیے گئے، جن میں طویل المدتی زرعی اور آبی حکمت عملی پر اتفاق اور نئے نہری منصوبوں کے آغاز کے لیے وفاقی حکومت کی رضا مندی کی شرط شامل ہے۔

اجلاس میں 8 رکنی کونسل کے ارکان شامل تھے جن میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام سمیت دیگر شخصیات شامل تھیں۔ اجلاس میں 25 افراد کو خصوصی دعوت دی گئی۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے مابین مشاورت سے ہی کسی بھی نئے نہری منصوبے کو شروع کیا جائے گا، اور سی سی آئی کی رضا مندی کے بغیر کوئی نہریں تعمیر نہیں کی جائیں گی۔

اجلاس میں ایک اہم فیصلہ یہ بھی کیا گیا کہ وفاقی حکومت اور صوبوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو زرعی ترقی اور پانی کے استعمال کے حوالے سے طویل المدتی حکمت عملی تجویز کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی، نئی نہری تعمیرات کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) کی عبوری منظوری اور انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا سرٹیفکیٹ واپس لے لیا گیا۔

مشترکہ مفادات کونسل نے بھارتی یکطرفہ غیر قانونی اقدامات کی بھرپور مذمت کی اور قومی یکجہتی کا پیغام دیا۔ کونسل کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے لیکن اپنے آبی مفادات کا بھرپور دفاع کرنا جانتا ہے۔ تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ نے بھارت کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف یک زبان ہو کر اپنے اتحاد کا اظہار کیا۔

اجلاس میں سی سی آئی سیکریٹریٹ کی جانب سے مالی سال 2021-2023 کی رپورٹس پیش کی گئیں، اور مشترکہ مفادات کونسل کے ریکروٹمنٹ رولز کی منظوری بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی اور اسٹیٹ آف انڈسٹری کی سالانہ رپورٹس بھی پیش کی گئیں۔

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے کینال منصوبہ مسترد کر دیا ہے اور ہر صوبے کو اس کے حصے کا پانی دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کے مسائل پر بات چیت کی جائے گی اور آئینی مسائل جیسے دسویں اور گیارھویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کا حل نکالا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد تمباکو کو زراعت کے طور پر تسلیم نہ کرنا ایک اہم مسئلہ تھا، جسے حل کر لیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے ان کے صوبے کو 100 ارب روپے کا فائدہ ہوگا، جو ایک آئینی حق تھا۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب میں بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے 6 نہریں نکالنے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جسے پیپلز پارٹی اور سندھ کے قوم پرست رہنماؤں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے سخت مخالفت کی۔ اس منصوبے کی مخالفت میں کسانوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے احتجاج بھی کیا تھا۔

سی سی آئی کا اجلاس اور اس میں کیے گئے فیصلے ملک بھر میں آبی اور زرعی ترقی کی حکمت عملی کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں، اور اس سے متعلق آگے آنے والے اقدامات ملک کی معیشت اور صوبوں کے درمیان پانی کے حقوق پر گہرے اثرات ڈالیں گے۔
 

Mocha7

Chief Minister (5k+ posts)
screenshot_1745863041018.png


Ye hai jamhooriat, mil beth kar saare masle hal ho jate hain. Aise signs kabhi PTI ke daur mein dekhne ko nahi milte
 

ek hindustani

Chief Minister (5k+ posts)
screenshot_1745863041018.png


Ye hai jamhooriat, mil beth kar saare masle hal ho jate hain. Aise signs kabhi PTI ke daur mein dekhne ko nahi milte
Abay O Mochi !
Tuu kis Jamhooriyat ki baat kar riya hai bay.
Jamhooriyat usi dinn kham ho gai thi jis din tere jaisay pillon k liay Topi walon nay 47 ki corrupt hukumat bana kar di thi.
Chup Saalay !
 

Back
Top