News_Icon
Chief Minister (5k+ posts)

باکو: وزیراعظم شہباز شریف نے ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی مالیاتی امداد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے فریم ورک کے تحت مخصوص فنڈز مختص کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو 2030 تک تقریباً 6.8 ہزار ارب ڈالر درکار ہیں، اور موسمیاتی مالیات کو قرض کے طور پر فراہم کرنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں کوپ 29 کانفرنس کے موقع پر پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے کلائمیٹ فنانس گول میز مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی مالیاتی نظام کو دوبارہ تشکیل دینا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ کمزور ممالک کو مؤثر امداد فراہم کی جا سکے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ قرضے بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کا سبب بن رہے ہیں، اور ان کو 'موت کے جال' کا نام دیتے ہوئے کہا کہ یہ طرزِ عمل ترقی پذیر ممالک کو قرض کے جال میں دھکیل رہا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی مالیات کو امداد کے طور پر فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے قابل بنایا جاسکے۔ انہوں نے دنیا کے عطیات دینے والے ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنے مالی وعدے پورے کریں، جو ان کی جی این پی کا 4.7 فیصد بنتے ہیں۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ 100 ارب ڈالر کا وعدہ جو کوپ 15 کے موقع پر کیا گیا تھا، اب تک صرف 160 ارب ڈالر تک پہنچ سکا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے عالمی برادری کو اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔ انہوں نے پاکستان میں آنے والے دو تباہ کن سیلابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2022 میں ایک تہائی ملک پانی میں ڈوب گیا تھا، جس کے بعد ملک کو ترقیاتی اور ماحولیاتی فنڈز کا دوبارہ استعمال کرنا پڑا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بعد ازاں تاجکستان کی میزبانی میں گلیشیئرز کے تحفظ سے متعلق تقریب میں بھی شرکت کی، جہاں انہوں نے گلیشیئرز کے تحفظ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 7 ہزار گلیشیئرز ہیں جو ملک کے 90 فیصد پانی کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ درجہ حرارت میں اضافے سے گلیشیئرز کا پگھلنا انسانیت کے لیے خطرناک ہے اور مستقبل میں پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے ان کا تحفظ ضروری ہے۔
- Featured Thumbs
- https://i.dawn.com/primary/2024/11/12135736e9de593.jpg