khalilqureshi
Senator (1k+ posts)
یوں تو پاکستان میں انصاف کی بے توقیری آزادی ملتے ہی شروع ہو گئی تھی لیکن اس کی سب سے بڑی مثال جسٹس منیر کا وہ فیصلہ تھا جس نے طاقت کو انصاف پر فوقیت دی اور پاکستان پر ایوب خان کی شکل میں گیارہ سال کی طویل رات مسلط کر دی.
اس اولیں طاقت کو تسلیم کرنے والے فیصلے نے پاکستان پر ہمیشہ کے لئے پاکستان پر طاقت کو تسلیم کرنے پر مہر ثبت کردی. اس فیصلے نے طاقتور کے ہاتھ ہر سطح پر مضبوط کئے اور انصاف ہر سطح پر کمزور ہؤا. عدالت میں جو طاقتور ہؤا وہ اپنے حق میں فیصلہ لے آتا، قطع نظر اس کے کہ قانون کی نظر میں اس کی کیا حیثیت تھی. چنانچہ اب "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کے مضداق پاکستان لاقانونیت کا گڑہ بن گیا.
انصاف کی یہ بے توقیری جاری تھی کہ ہم نے انصاف کو قعر مزلت میں گرتے دیکھا جب اپریل ۲۰۲۲ میں عدالت عظمہ نے پارلیامینٹ کوبغیر ایک پارٹی کو سنے پارلیامینٹ کو احکامات جاری کردئے کہ فلاں تاریخ کو فلاں وقت پر اجلاس طلب کرو اور فلاں وقت سے پہلے پہلے تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کروالو. اس شرمناک فیصلے نے ایک تو پارلیامینٹ کو مکمل طور پر بے توقیر کردیا اور یہ بے توقیری کسی اور نہی بلکہ عدالت عظمہ کے پاکستان کے شرمناک ترین فیصلے نے دی اور پاکستان میں آرمی اور جیوڈیشل مارشل لاء کی راہ ہموار کی بلکہ اس فیصلے نے پاکستان کو جس طرح جہنم کی آگ میں دھکیل دیا تو بظاہر یہ پاکستان کی عدلیاتی فیصلوں کا شرمناک ترین فیصلہ لگا. لیکن اس فیصلے نے گویا اگر کچھ شرم باقی تھی اس کو بھی خٹم کردیا. اس فیصلے نے گویا نا انصافی پر مبنی فیصلوں پر لگے ہؤے بند کو توڑ دیا اور نا انصافی پر مبنی فیصلوں کا تانتا باندھ دیا اور اسی طرح طاقتور کو نامنظور عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد سے مکمل انکار نے انصاف کی بے توقیری اور طاقت کو سلام کی بے حد کریہہ تصویر کشی کی اس کے بعد میرا خیال تھا کہ انصاف کی منصفوں اور طاقتور کے ہاتھوں اس سے زیادہ تذلیل ممکن نہیں لیکن کل ہی مبارک ثانی کیس میں جسطرح عدالت عظمہ، نظام انصاف، قاضی اور ساتھیوں کی تذلیل ہوئی ہے اور جس طرح طاقتور ان سب پر حاوی آئے ہیں اس کی مثال خال خال ہی ملے گی.
میں ان تینوں فیصلوں کے حسن وقبح پر خامہ فرسائی کئے بغیر کہ میں اس مسئلے پر اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہؤے صرف طریقہ کار پر اور انصاف کی مکمل اور تمام ممکنہ طور ر فراہمی پر بات کرنا چاہوں گا.
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر انصاف پر مبنی فیصلے دینے کی روایت ہو اور طاقتور سزا سے بالاتر نہ ہوتو پھر رفتہ رفتہ قانون کی مکمل عملداری قائم ھوجاتی ہے اور عدالتی فیصلوں سے اختلاف کے باوجود اس سے انکار ممکن نہیں ہوتا لیکن جب منصف خود انصاف کے منافی فیصلے دینے لگے تو جنگل سے بدتر صورتحال پیدا ہو جاتی ہے معاشرے کا کوئی فردحتہ کہ طاقتور ترین فرد بھی اس لاقانونیت کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور اس کی زندہ اور تازہ ترین مثال قاضی فاعز عیسیٰ اور ہمنوا ہیں.
یہ کبھی نہیں ہوا کہ سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کودو بار چیلنج کیا گیا ہو. میں نہں جانتا کہ قانونی، آئینی اور مذھبی طور پر پہلا اور دوسرا فیصلہ صحیح تھا یا تیسرا لیکن کیا جن تین ججز نے پہلے دو رائے دی وہ صحیح تھی یا انہی ججز کی تیسرے فیصلے میں. کیا پہلا فیصلہ صحیح تھا لیکن طاقتوروں کی عدالت کے باہر طاقت کے اظہار اور عدالت کے اندر تذلیل مسلسل سے مجبور ہوکر فیصلہ دیا. اگر ایسا نہیں تھاتو کیا پہلے دو غلط فیصلے کسی اور اندیکھی طاقت کا نتیجہ تھے اور ان سے زیادہ طاقتوروں نے اپنا آپ منوا لیا. قاضیو ہر دو صورتوں میں تمہاری کیا حیثیت ہے. ایک مسلمان کی حیثیت سے تم زمین پرخدا کے نائب ہو کہ خدا نے اپنی ایک بڑی حیثیت یعنی الحکم کی زمین پر ذمہ داریاں تمہیں تفویض کی ہیں. کیا تم ان تفویض کردہ فرائض سے عہدہ براء ہو رہے ہو. یقیناً نہیں تو کیا تمہارا ان عہدوں سے چمٹے رہنا تمہیں زیب دیتا ہے. اس سوال کا جواب تمہیں ہی دینا ہے
ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہمیں انصاف کی بے توقیری اور طاقتور کے ہاتھوں تذلیل منظور ہے یا ہمیں عزت اور انصاف درکار ہے