Asad Mujtaba
Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان تحریک انصاف کی پولیٹیکل کمیٹی کا اجلاس:
پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی، مقبول ترین جماعت ہے جبکہ بانی چیئرمین کروڑوں پاکستانیوں کے حقیقی مینڈیٹ کے حامل اور ان کی سیاسی امنگوں کے پاسبان ہیں۔
عمران خان کی سیاسی جدوجہد کا محور و مرکز پاکستان اور اس کے 24 کروڑ عوام کا مفاد ہے جسے انہوں نے ہمیشہ اپنے عمل سے ثابت کیا ہے۔
گزشتہ اڑھائی برس سے عمران خان، ان کی اہلیہ، ان کی بہنیں، ان کے خاندان کے افراد، ان کے کارکنان اور ان کی جماعت کے ذمہ داران بدترین ریاستی فسطائیت کے شکار ہیں تاہم عمران خان جیل میں بیٹھ کر بھی اپنے ملک اور اپنی قوم کو ہر لحاظ سے مقدم رکھے ہوئے ہیں،
4 اکتوبر کو اسلام آباد میں پرامن احتجاج کی کال کی ناگزیر ضرورت کے پیچھے دستور کا وجود مسخ کرنے کیلئے آئینی ترمیم کی صورت میں کیا جانے والا حکومتی حملہ ہے جسے حکمران اتحاد کے علاوہ قوم کے کسی حصے سے کوئی قبولیت میسّر نہیں آئی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آئین کو اس انداز سے بدل دیا گیا تو نظامِ ریاست سے جمہوریت اور انصاف کی روح رخصت ہوجائے گی اور جو کچھ باقی بچے گا وہ ظلم اور محض ظلم کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
چنانچہ لاکھوں پاکستانی اپنے قائد کی کال پر پرامن احتجاج کیلئے نکلے اور بےشمار رکاوٹوں اور بدترین جبر کا سامنا کرتے ہوئے نہایت پرامن انداز میں احتجاج کے طے شدہ مقام یعنی ڈی چوک، اسلام آباد پہنچے۔
اس پرامن احتجاج کو کچلنے کیلئے جہاں پوری جماعت اور شہریوں کے خلاف لاقانونیت کی ہر حد پامال کی گئی وہیں اڈیالہ میں ناحق قید ہمارے قائد جناب عمران خان صاحب کو تمام قانونی و انسانی حقوق سے محروم کردیا گیا۔
گزشتہ دس روز سے وہ مکمل طور پر تنہائی میں قید ہیں۔
اسی دوران ان کے سیل کی بجلی کاٹ دینے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔
کسی قانونی و اخلاقی جواز کے بغیر ان کے معالجین/ڈاکٹرز، ان کے اہلِ خانہ، وکلاء اور جماعتی ذمہ داران سے ملاقاتوں کے سلسلے پر غیرقانونی پابندی عائد کردی گئی۔
ہم نے مسلسل درخواست کی کہ عمران خان صاحب تک رسائی کو بحال کیا جائے، ان کے ڈاکٹرز کو ان کے طبی معائنے کی اجازت دی جائے اور بقیہ پابندیاں بھی ہٹائی جائیں تاہم حکومت کی جانب سے سنگدلی کا مظاہرہ ہی دیکھنے میں آیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور پوری قوم کی تشویش کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے پرامن احتجاج کیلئے 15 اکتوبر کو مشروط طور پر پرامن احتجاج کیلئے اسلام آباد کا رخ کرنے کا اعلان کیا۔
ہم اپنی تمام تنظیمات،ممبرصوبائی اسمبلی، ٹکٹ ہولڈرز اور ذمہ داران کے مشکور ہیں کہ جنہوں نے نہایت کم وقت اور بےپناہ چیلنجز کے باوجود پرامن احتجاج کی تیاریوں کو یقینی بنایا۔
تاہم ہمارے ہم خیال سیاسی قائدین اور اتحادی جماعتوں نے ایس سی او اجلاس کے پیشِ نظر 15 اکتوبر کے اس پرامن احتجاج کو مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
اس کے ساتھ متعدد دوست ممالک کیجانب سے بھی احتجاج کے شیڈیول پر نظرِ ثانی کی التماس ہمیں سفارتی و دوطرفہ ذرائع سے وصول ہوئی۔
اس کے ساتھ وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے حکومت کی جانب سے ہم سے باضابطہ رابطہ کیا اور ایس سی او اجلاس کے انعقاد کے پیشِ نظر احتجاج کے فیصلے پر نظرِثانی کی درخواست کی اور گارنٹی دی کہ بانی چیئرمین عمران خان صاحب کے طبّی معائنے کیلئے کل (بروز منگل) صبح معالج بھجوانے کے ساتھ ان کے بقیہ تمام حقوق بھی بحال کئے جائیں گے۔
اس ساری صورتحال کا سیاسی کمیٹی نے جائزہ لیا اور وطنِ عزیز کے قومی مفاد کے پیشِ نظر 15 اکتوبر کے احتجاج کو مؤخّر کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے مفاد میں اٹھائے گئے ہمارے اس قدم کو کمزوری سمجھ کر فسطائیت کی جاری روش کو برقرار نہیں رکھا جائے گا بلکہ عمران خان صاحب کے تمام بنیادی حقوق فی الفور بحال کئے جائیں گے اور آئین کو بدلنے کا ناقابلِ قبول منصوبہ ترک کرکے آئین و جمہوریت کی بحالی کی راہ ہموار کی جائے گی۔
اگر حکومت نے اپنی روش کی اصلاح نہ کی تو عوام بھرپور مزاحمت کیلئے شاید مزید کسی کال کا بھی انتظار نہ کریں۔
منجانب: مرکزی میڈیا ڈیپارٹمنٹ
https://twitter.com/x/status/1845988353105449195
پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی، مقبول ترین جماعت ہے جبکہ بانی چیئرمین کروڑوں پاکستانیوں کے حقیقی مینڈیٹ کے حامل اور ان کی سیاسی امنگوں کے پاسبان ہیں۔
عمران خان کی سیاسی جدوجہد کا محور و مرکز پاکستان اور اس کے 24 کروڑ عوام کا مفاد ہے جسے انہوں نے ہمیشہ اپنے عمل سے ثابت کیا ہے۔
گزشتہ اڑھائی برس سے عمران خان، ان کی اہلیہ، ان کی بہنیں، ان کے خاندان کے افراد، ان کے کارکنان اور ان کی جماعت کے ذمہ داران بدترین ریاستی فسطائیت کے شکار ہیں تاہم عمران خان جیل میں بیٹھ کر بھی اپنے ملک اور اپنی قوم کو ہر لحاظ سے مقدم رکھے ہوئے ہیں،
4 اکتوبر کو اسلام آباد میں پرامن احتجاج کی کال کی ناگزیر ضرورت کے پیچھے دستور کا وجود مسخ کرنے کیلئے آئینی ترمیم کی صورت میں کیا جانے والا حکومتی حملہ ہے جسے حکمران اتحاد کے علاوہ قوم کے کسی حصے سے کوئی قبولیت میسّر نہیں آئی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آئین کو اس انداز سے بدل دیا گیا تو نظامِ ریاست سے جمہوریت اور انصاف کی روح رخصت ہوجائے گی اور جو کچھ باقی بچے گا وہ ظلم اور محض ظلم کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
چنانچہ لاکھوں پاکستانی اپنے قائد کی کال پر پرامن احتجاج کیلئے نکلے اور بےشمار رکاوٹوں اور بدترین جبر کا سامنا کرتے ہوئے نہایت پرامن انداز میں احتجاج کے طے شدہ مقام یعنی ڈی چوک، اسلام آباد پہنچے۔
اس پرامن احتجاج کو کچلنے کیلئے جہاں پوری جماعت اور شہریوں کے خلاف لاقانونیت کی ہر حد پامال کی گئی وہیں اڈیالہ میں ناحق قید ہمارے قائد جناب عمران خان صاحب کو تمام قانونی و انسانی حقوق سے محروم کردیا گیا۔
گزشتہ دس روز سے وہ مکمل طور پر تنہائی میں قید ہیں۔
اسی دوران ان کے سیل کی بجلی کاٹ دینے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔
کسی قانونی و اخلاقی جواز کے بغیر ان کے معالجین/ڈاکٹرز، ان کے اہلِ خانہ، وکلاء اور جماعتی ذمہ داران سے ملاقاتوں کے سلسلے پر غیرقانونی پابندی عائد کردی گئی۔
ہم نے مسلسل درخواست کی کہ عمران خان صاحب تک رسائی کو بحال کیا جائے، ان کے ڈاکٹرز کو ان کے طبی معائنے کی اجازت دی جائے اور بقیہ پابندیاں بھی ہٹائی جائیں تاہم حکومت کی جانب سے سنگدلی کا مظاہرہ ہی دیکھنے میں آیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور پوری قوم کی تشویش کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے پرامن احتجاج کیلئے 15 اکتوبر کو مشروط طور پر پرامن احتجاج کیلئے اسلام آباد کا رخ کرنے کا اعلان کیا۔
ہم اپنی تمام تنظیمات،ممبرصوبائی اسمبلی، ٹکٹ ہولڈرز اور ذمہ داران کے مشکور ہیں کہ جنہوں نے نہایت کم وقت اور بےپناہ چیلنجز کے باوجود پرامن احتجاج کی تیاریوں کو یقینی بنایا۔
تاہم ہمارے ہم خیال سیاسی قائدین اور اتحادی جماعتوں نے ایس سی او اجلاس کے پیشِ نظر 15 اکتوبر کے اس پرامن احتجاج کو مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
اس کے ساتھ متعدد دوست ممالک کیجانب سے بھی احتجاج کے شیڈیول پر نظرِ ثانی کی التماس ہمیں سفارتی و دوطرفہ ذرائع سے وصول ہوئی۔
اس کے ساتھ وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے حکومت کی جانب سے ہم سے باضابطہ رابطہ کیا اور ایس سی او اجلاس کے انعقاد کے پیشِ نظر احتجاج کے فیصلے پر نظرِثانی کی درخواست کی اور گارنٹی دی کہ بانی چیئرمین عمران خان صاحب کے طبّی معائنے کیلئے کل (بروز منگل) صبح معالج بھجوانے کے ساتھ ان کے بقیہ تمام حقوق بھی بحال کئے جائیں گے۔
اس ساری صورتحال کا سیاسی کمیٹی نے جائزہ لیا اور وطنِ عزیز کے قومی مفاد کے پیشِ نظر 15 اکتوبر کے احتجاج کو مؤخّر کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے مفاد میں اٹھائے گئے ہمارے اس قدم کو کمزوری سمجھ کر فسطائیت کی جاری روش کو برقرار نہیں رکھا جائے گا بلکہ عمران خان صاحب کے تمام بنیادی حقوق فی الفور بحال کئے جائیں گے اور آئین کو بدلنے کا ناقابلِ قبول منصوبہ ترک کرکے آئین و جمہوریت کی بحالی کی راہ ہموار کی جائے گی۔
اگر حکومت نے اپنی روش کی اصلاح نہ کی تو عوام بھرپور مزاحمت کیلئے شاید مزید کسی کال کا بھی انتظار نہ کریں۔
منجانب: مرکزی میڈیا ڈیپارٹمنٹ
https://twitter.com/x/status/1845988353105449195