پنجاب کے عام شہریوں کے کال ڈیٹیل ریکارڈ کے غلط استعمال کاانکشاف

13smmarponnhancaaldta.jpg

ایک اندازے کے مطابق لاہور سے سالانہ 1 لاکھ 25 ہزار جبکہ پنجاب بھر سے 6 لاکھ سے زائد شہریوں کا کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) حاصل کیا جاتا ہے۔

تفصیلات کے صوبہ پنجاب کے شہریوں کا کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) پولیس اہلکاروں کی طرف سے غلط استعمال کیے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے جبکہ پولیس کے تفتیشی افسران حساس کال ڈیٹل ریکارڈ ملزمان پکڑنے کیلئے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو تنگ کرنے کیلئے بھی استعمال کر رہے ہیں۔

آئی پنجاب کی طرف سے شہریوں کے ریکارڈ کو محفوظ بنانے کیلئے ہدایات جاری کی گئی ہیں جس کے مطابق سی ڈی آر کا غلط استعمال روکنے کیلئے نئے ایس او پیز جاری کر دیئے گئے ہیں۔

پولیس افسران کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ ایف آئی آر کے بغیر موبائل کالز کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا جائے گا جبکہ نامزد ملزمان کا کال ڈیٹیل ریکارڈ لینے کیلئے تفتیشی افسر اپنے ضلعی دفاتر میں رابطہ کرینگے۔ سی ڈی آر لیک ہونے پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو ذمہ دار سمجھا جائے گا اور متعلقہ کمپنی کے ساتھ ایس پی انویسٹی گیشن بھی رابطے میں ہونگے جبکہ ایل میل کے ذریعے کسی بھی ملزم کا ڈیٹا درکار ہو گا تو کال ڈیٹیل ریکارڈ حاصل کیا جائے گا۔

تفتیشی حکام کو متعلقہ دفتر سے سی ڈی آرز وصولی کی آگاہی دی جائے گی اور ہر 2 مہینوں بعد ریجنل پولیس آفیسرز کی طرف سے سی ڈی آرز کا آڈٹ کرنے کے ساتھ ساتھ سی ڈی آرز کی مدد سے گرفتار ملزمان کی تفصیلات آئی جی پنجاب کو فراہم کرنی ہونگی جبکہ کسی بھی عام شہری کے فون کے ڈیٹا کیلئے ان سے اجازت بھی لینی پڑے گی۔

ایک اندازے کے مطابق لاہور سے سالانہ 1 لاکھ 25 ہزار جبکہ پنجاب بھر سے 6 لاکھ سے زائد شہریوں کا کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) حاصل کیا جاتا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق تفتیشی افسران بہت سے عام شہریوں کے موبائل فونز کی سی ڈی آرز دینے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ آئی جی پنجاب کی طرف سے جاری نئے ایس او پیز ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشنز کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی نے تیار کیے ہیں۔
 

wasiqjaved

Chief Minister (5k+ posts)
Give me someone's phone number and within few hours, I can get their entire NADRA, banking, telcom and FBR profile.

People are selling this service openly on twitter.