ملک میں کپاس کی مقامی پیداوار میں مسلسل کمی اور ناقص پالیسی سازی کے باعث رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران کپاس کی درآمدات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
دنیا نیوز کے مطابق، اس مدت میں پاکستان نے 3 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی کپاس بیرون ممالک سے خریدی، جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ رقم 1 ارب 93 کروڑ ڈالر تھی — یوں کپاس کی درآمد میں تقریباً 60 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
حیرت انگیز طور پر حکومت نے مقامی سطح پر فروخت ہونے والی کپاس اور سوتی دھاگے پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کر رکھا ہے، جبکہ بیرون ملک سے یہی اجناس ڈیوٹی فری درآمد کی جا سکتی ہیں۔ یہ تضاد مقامی کسانوں کے لیے نقصان دہ اور درآمد کنندگان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1913879121366507648
چند ماہ قبل ہی کاٹن جنرز نے خبردار کیا تھا کہ جننگ فیکٹریوں میں پھٹی کی ترسیل میں 33 فیصد کمی آئی ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 2 ارب ڈالر کی کپاس درآمد کرنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے — اور اب یہ پیش گوئی حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سالانہ تقریباً 1 کروڑ 60 لاکھ گانٹھوں کی کپاس درکار ہوتی ہے، مگر مقامی سطح پر کاشتہ رقبہ اور پیداوار مسلسل گھٹ رہی ہے۔ کپاس نہ صرف ایک اہم نقد آور فصل ہے بلکہ ٹیکسٹائل جیسے بڑے برآمدی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی بھی ہے۔ اس کے باوجود، حکومتی پالیسیوں میں عدم سنجیدگی اور ترجیحات کا فقدان صاف دکھائی دیتا ہے۔