Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
"اس پہ چیف جسٹس صاحب نے رجسٹرار سمیت عملے کو ارجنٹ کیسز فی الفور پراسیس کرنے کا حکم دیا"۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات میں کیا ہوا؟ڈاکٹر بابر اعوان کا اپنے کالم میں انکشاف۔۔ کونسی درخواست پر فوری طور پر عملدرآمد ہوگیا؟
اہم ، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کرنے والے وفد میں شامل پی ٹی آئی رہنما سینئر قانون دان ڈاکٹر بابر اعوان کا آج کے کالم میں اہم انکشاف ۔۔
" میں نے جناب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے درخواست ضمانت‘ قیدیوں کی سزائوں کی معطلی کی درخواست اور سٹے میٹر فوری طور پہ فکس کرنے کی درخواست کی‘ جس پہ جناب چیف جسٹس صاحب نے رجسٹرار سمیت عملے کو ارجنٹ کیسز فی الفور پراسیس کرنے کا حکم دیا "
https://twitter.com/x/status/1893904128319041644
چیف جستس یحیٰ آفریدی سے ملاقات کرنے والے پی ٹی آئی رہنما بابر اعوام کا اپنے کالم میں ملاقات بارے اہم انکشاف!
لکھا " میں نے جناب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے درخواست ضمانت‘ قیدیوں کی سزائوں کی معطلی کی درخواست اور سٹے میٹر فوری طور پہ فکس کرنے کی درخواست کی‘ جس پہ جناب چیف جسٹس صاحب نے رجسٹرار سمیت عملے کو ارجنٹ کیسز فی الفور پراسیس کرنے کا حکم دیا "
https://twitter.com/x/status/1893897099693216169
پچھلے ہفتے فارم 47 رجیم کی مصنوعی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان جناب یحییٰ آفریدی سے اُن کی سرکاری رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس ملاقات کا حکومتی اعلامیہ پڑھ کر یار لوگ ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوئے۔ اعلامیہ تین نکات پر مشتمل تھا‘ پہلا یہ کہ معیشت درست کرنے کے لیے شہباز شریف نے چیف جسٹس سے گفتگو کی۔
دوسرا نکتہ سیکورٹی کی صورتِ حال اور تیسرا نکتہ قانونی امور۔ اس سے پہلے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کو چیف جسٹس صاحب نے حکومتی وفد کے ساتھ مشترکہ ملاقات کی دعوت دی۔ ہمارا فیصلہ تھا کہ ہم اس حکومت کے مائوتھ پیس کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ ہمارا وفد جناب عمران خان کی منظوری سے طے پایا اور حکومت کے بعد ہم چیف جسٹس صاحب سے ملنے گئے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ حکومتی ملاقات کے بارے میں سرکار نے خوب اپنے مطلب کی پبلسٹی کی جبکہ ہماری ملاقات پر اعتراضات کے انبار لگائے گئے۔ دربار کی جانب سے سب بڑا اعتراض یہ تھا‘ 26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کے بعد چیف جسٹس صاحب سے ملاقات کا کیا جواز ہے۔ سادہ سی بات ہے سپریم کورٹ آف پاکستان سب سے بڑا عدالتی فورم ہے ۔ اس فورم میں 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے شہباز رجیم نے مداخلت کی ہے۔
پی ٹی آئی کی لڑائی کسی بھی ادارے سے نہیں بلکہ اس دستوری اور جمہوری جنگ کا بنیادی نکتہ اداروں کو قانون کے دائرے میں لا کر مکمل آزادی دلوانا ہے۔ چیف جسٹس جناب یحییٰ آفریدی سے ہماری ملاقات کی جو پریس ریلیز سپریم کورٹ کے پی آ ر او آفس نے جاری کی اُس کی ساری تفصیل آپ سامنے رکھیں تو کسی جگہ رُول آف لاء اور دستوری راج کے علاوہ ہماری جانب سے کوئی مطالبہ موجود نہیں۔
حالات کی رفتار سے لگتا ہے کہ سرکار کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ہماری ملاقات تین وجہ سے اچھی نہ لگی۔ اول‘ اُن کے خیال میں پی ٹی آئی کو انصاف کے سب سے بڑے فورم کے مقابل کھڑا کرنے کا خواب پورا نہ ہوا۔ دوسرا‘ موجودہ چیف جسٹس نے حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو جوڈیشل ریفارم کے 10 نکات پر اور رُول آف لاء کے حوالے سے کھل کر اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا۔
میں نے جناب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے درخواست ضمانت‘ قیدیوں کی سزائوں کی معطلی کی درخواست اور سٹے میٹر فوری طور پہ فکس کرنے کی درخواست کی‘ جس پہ جناب چیف جسٹس صاحب نے رجسٹرار سمیت عملے کو ارجنٹ کیسز فی الفور پراسیس کرنے کا حکم دیا۔ اپوزیشن لیڈرعمر ایوب‘ سینیٹ اپوزیشن لیڈر شبلی فراز اور دوسرے ارکانِ وفد نے بلوچستان سمیت ملک بھر کے گمشدہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔
میں نے چیف جسٹس صاحب کو بتایا کہ گمشدہ افراد ایک وہ ہیں جنہیں قانونی کارروائی کے بجائے غیر قانونی حبسِ بے جا میں رکھا گیا ہے۔ دوسرے وہ جن کے بارے میں شہباز شریف نے عدالت میں جا کر بیان ریکارڈ کروایا کہ اب کسی شہری کو گھر سے نہیں اُٹھایا جائے گا۔ بیرسٹر گوہر نے گم ہونے والے پارلیمنٹیرینز‘ پی ٹی آئی کے ورکرز اور بے گناہ شہریوں کی تفصیل چیف جسٹس صاحب کے سامنے رکھی۔ سادہ لفظوں میں عمران خان کی جانب سے اس ملاقات کی اجازت دینے کا مقصد صرف یہ تھا۔
dunya.com.pk
اہم ، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کرنے والے وفد میں شامل پی ٹی آئی رہنما سینئر قانون دان ڈاکٹر بابر اعوان کا آج کے کالم میں اہم انکشاف ۔۔
" میں نے جناب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے درخواست ضمانت‘ قیدیوں کی سزائوں کی معطلی کی درخواست اور سٹے میٹر فوری طور پہ فکس کرنے کی درخواست کی‘ جس پہ جناب چیف جسٹس صاحب نے رجسٹرار سمیت عملے کو ارجنٹ کیسز فی الفور پراسیس کرنے کا حکم دیا "
https://twitter.com/x/status/1893904128319041644
چیف جستس یحیٰ آفریدی سے ملاقات کرنے والے پی ٹی آئی رہنما بابر اعوام کا اپنے کالم میں ملاقات بارے اہم انکشاف!
لکھا " میں نے جناب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے درخواست ضمانت‘ قیدیوں کی سزائوں کی معطلی کی درخواست اور سٹے میٹر فوری طور پہ فکس کرنے کی درخواست کی‘ جس پہ جناب چیف جسٹس صاحب نے رجسٹرار سمیت عملے کو ارجنٹ کیسز فی الفور پراسیس کرنے کا حکم دیا "
https://twitter.com/x/status/1893897099693216169
پچھلے ہفتے فارم 47 رجیم کی مصنوعی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان جناب یحییٰ آفریدی سے اُن کی سرکاری رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس ملاقات کا حکومتی اعلامیہ پڑھ کر یار لوگ ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوئے۔ اعلامیہ تین نکات پر مشتمل تھا‘ پہلا یہ کہ معیشت درست کرنے کے لیے شہباز شریف نے چیف جسٹس سے گفتگو کی۔
دوسرا نکتہ سیکورٹی کی صورتِ حال اور تیسرا نکتہ قانونی امور۔ اس سے پہلے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کو چیف جسٹس صاحب نے حکومتی وفد کے ساتھ مشترکہ ملاقات کی دعوت دی۔ ہمارا فیصلہ تھا کہ ہم اس حکومت کے مائوتھ پیس کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ ہمارا وفد جناب عمران خان کی منظوری سے طے پایا اور حکومت کے بعد ہم چیف جسٹس صاحب سے ملنے گئے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ حکومتی ملاقات کے بارے میں سرکار نے خوب اپنے مطلب کی پبلسٹی کی جبکہ ہماری ملاقات پر اعتراضات کے انبار لگائے گئے۔ دربار کی جانب سے سب بڑا اعتراض یہ تھا‘ 26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کے بعد چیف جسٹس صاحب سے ملاقات کا کیا جواز ہے۔ سادہ سی بات ہے سپریم کورٹ آف پاکستان سب سے بڑا عدالتی فورم ہے ۔ اس فورم میں 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے شہباز رجیم نے مداخلت کی ہے۔
پی ٹی آئی کی لڑائی کسی بھی ادارے سے نہیں بلکہ اس دستوری اور جمہوری جنگ کا بنیادی نکتہ اداروں کو قانون کے دائرے میں لا کر مکمل آزادی دلوانا ہے۔ چیف جسٹس جناب یحییٰ آفریدی سے ہماری ملاقات کی جو پریس ریلیز سپریم کورٹ کے پی آ ر او آفس نے جاری کی اُس کی ساری تفصیل آپ سامنے رکھیں تو کسی جگہ رُول آف لاء اور دستوری راج کے علاوہ ہماری جانب سے کوئی مطالبہ موجود نہیں۔
حالات کی رفتار سے لگتا ہے کہ سرکار کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ہماری ملاقات تین وجہ سے اچھی نہ لگی۔ اول‘ اُن کے خیال میں پی ٹی آئی کو انصاف کے سب سے بڑے فورم کے مقابل کھڑا کرنے کا خواب پورا نہ ہوا۔ دوسرا‘ موجودہ چیف جسٹس نے حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو جوڈیشل ریفارم کے 10 نکات پر اور رُول آف لاء کے حوالے سے کھل کر اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا۔
میں نے جناب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے درخواست ضمانت‘ قیدیوں کی سزائوں کی معطلی کی درخواست اور سٹے میٹر فوری طور پہ فکس کرنے کی درخواست کی‘ جس پہ جناب چیف جسٹس صاحب نے رجسٹرار سمیت عملے کو ارجنٹ کیسز فی الفور پراسیس کرنے کا حکم دیا۔ اپوزیشن لیڈرعمر ایوب‘ سینیٹ اپوزیشن لیڈر شبلی فراز اور دوسرے ارکانِ وفد نے بلوچستان سمیت ملک بھر کے گمشدہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔
میں نے چیف جسٹس صاحب کو بتایا کہ گمشدہ افراد ایک وہ ہیں جنہیں قانونی کارروائی کے بجائے غیر قانونی حبسِ بے جا میں رکھا گیا ہے۔ دوسرے وہ جن کے بارے میں شہباز شریف نے عدالت میں جا کر بیان ریکارڈ کروایا کہ اب کسی شہری کو گھر سے نہیں اُٹھایا جائے گا۔ بیرسٹر گوہر نے گم ہونے والے پارلیمنٹیرینز‘ پی ٹی آئی کے ورکرز اور بے گناہ شہریوں کی تفصیل چیف جسٹس صاحب کے سامنے رکھی۔ سادہ لفظوں میں عمران خان کی جانب سے اس ملاقات کی اجازت دینے کا مقصد صرف یہ تھا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات
بابر اعوان کا کالمـ - چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات 2025-02-24 کو روزنامہ دنیا میں شائع ہوا۔ پڑھنے کے لیے کلک کریں
