ڈالر کی قیمت میں آرمی چیف کابڑا ہاتھ ہے،سعودی ولی عہد آئیں گے:وزیراعظم

naveed

Chief Minister (5k+ posts)

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدر کے پاس نہیں ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔ آخری مرتبہ اس حوالے سے جو قانون سازی کی گئی وہ یہی تھی کہ اختیار صدر سے لے کر الیکشن کمیشن کو دے دیا جائے۔

آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں میزبان منیزے جہانگیر کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے الیکشن کی تاریخ پر وکلاء تحریک اور اس سے سول ان ریسٹ پیدا ہونے کے حوالے سے نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا یہ معاملہ سول انتشار کی طرف جائے گا۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بڑی ہلچل ہوگی۔

صدر مملکت کے آپ کے کیسے تعلقات ہیں اور کیا الیکشن کی تاریخ پر کوئی ملاقات ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تعلقات ’مناسب ہیں‘۔ لیکن الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ میرا فوکس معیشت، دہشتگردی اور خارجہ پالیسیز پر ہے۔

پاکستان میں الیکشن کب تک ہوجائیں گے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ غیر ضروری طور پر انتخابات کو کھینچا نہیں جائے گا، حلقہ بندیاں مکمل ہونے کا انتظار ہے، اہم بات یہ ہے کہ ’حلقہ بندیاں ٹھیک ہوں ان میں کسی ایک سیاسی جماعت کا رنگ نظر نہ آئے‘، ان میں مینوورنگ قدرے کم ہو۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ’پریشر نہیں رکھنا چاہیے، انہیں اپنا کام درست رکھنا چاہئے‘۔ وزیراعظم ہاؤس اور وفاقی کابینہ الیکشن کمیشن کا حصہ نہیں ہے وہ ایک آزاد ادارہ ہے جسے اپنے پلان کے مطابق کام کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئین پاکستان کی میں پوزیشن ہے وہی پوزیشن میری ہے۔

بلاول کے بیان ’کئیر ٹیکر حکومت چئیر ٹیکر نہ بنے‘ کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اگر انہیں کوئی نئے خدشات پیدا ہوئے ہیں تو اس کا علم نہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما مختلف پوزیشنز لیتے رہتے ہیں، ان میں سے کچھ درست ہوتی ہیں ، کچھ نہیں ہوتیں۔

آصف علی زرداری میثاقِ معیشت کی تجویز پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت خوبصورت تجویز ہے‘، تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ میثاق معیشت میری اپنی ذاتی خواہش بھی ہے اور میں ووٹ اس جماعت کو دوں گا جو معاشی بحالی کا پلان لے کر آئے گی۔

پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے سوال پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ 9 مئی کو کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جرم تھے، ریاست بدلہ نہیں لے گی بلکہ انصاف کرے گی۔

علی وزیر کی گرفتاری اور ان کے مقدمات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’سیاسی بات چیت میں پرامن شرکت، چاہے وہ علی وزیر صاحب ہوں یا کوئی اور صاحب ہوں، یہ ان کا بنیادی حق ہے، جمع ہونے کا حق، اظہار کا حق‘۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اگر ان کے ان حقوق کا مذاق بناتا ہے چاہے ریاست ہی کیوں نہ ہو تو یہ مناسب رویہ نہیں ہے۔ لیکن ان حقوق کو بنیاد بنا کر اگر آپ تفرقہ یا افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

کیا ریاست کو بغاوت کے الزامات عائد کرنے چاہئیۓ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’ریاست نے اگر قانون بنا دیا ہے تو یہ ریاست کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس کو نافذ کرے‘۔

اگر سپریم کورٹ نیب ترامیم کو اسٹرائیک ڈاؤں کر دیتی ہے تو کیا نگراں حکومت ریویو پر جائے گی؟ اس حوالے سے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ظاہر سے اس پر وزارت قانون کی جانب سے سوچ بچار کیا جائے گا اور جو وزارت قانون کی تجویز ہوگی کابینہ اس کے مطابق فیصلہ کرے گی، لیکن اگر ایسا ہوا تو امکانا ہیں کہ ریویو (نظر ثانی کی اپیل) میں جایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت وہ پاورز استعمال کر رہی ہے جو جاتی ہوئی پارلیمنٹ اس کو دے گئی ہے، اچھا قانون تھا یا برا تھا پارلیمنٹ نے یہ قانون بنایا، قانون سازی پارلیمنٹ کا بنیادی اختیار ہے اور موجودہ حکومت کو اس کا دفاع کرنا چاہیے۔

آئی ایس آئی چیف اس مہینے ریٹائر ہو رہے ہیں، کیا آپ انہیں ایکسٹینشن دیں گے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معلومات کا عوامی حلقوں میں کوئی بڑا کردار نہیں ہے، اس کے جو بھی مفہوم ہیں وہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہیں، آئی ایس آئی چیف کی ایکسٹینشن قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ایکسٹینشن پر تمام متعلقہ لوگوں کی رائے جان کر فیصلہ کروں گا۔

ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغان حکومت کے ارادوں اور ان کی صلاحیت کو دیکھ رہے ہیں، افغانستان ریاست کا تصور نہیں ہے جو دہشتگردوں کی دی گئی انفارمیشن کو بارڈر فورسز تک پہنچائے۔

پاکستان کی افغانستان کی حدود کے اندر کارروائی کرنے کے بیانات کے حوالے سے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کا دفاع کرے اور ہم ہر قیمت پر یہ کریں گے‘۔

افغانستان کے اندر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس وقت اس حوالے سے ابھی کچھ زیر غور نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں رجسٹرڈ لوگوں پر کوئی کریک ڈاؤن نہیں کیا جارہا، پھر غیر قانونی افغان مہاجرین ہیں جن کے پاس یہاں رہنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، جن کے خلاف ہم کریک ڈاؤن پلان کر رہے ہیں، غیرقانونی مہاجرین کو پاکستان کی سرزمین چھوڑنی ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمتوں میں آرمی چیف کا بہت بڑا کردار ہے اور اس کردار کے ساتھ حکومتی سپورٹ بھی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے دفاعی اداروں کا 8 سے 10 ارب ڈالرز بجٹ ہے، ہمارے بجٹ کا 17 فیصد دفاع میں جاتا ہے اور اس 17 فیصد میں ملٹری، ائرفورس اور نیوی بھی شامل ہے۔ فوجی بجٹ میں اضافہ ہونا چاہیے۔

سعودی ولی عہد کہ ممکنہ پاکستان آمد پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش اور امید یہ ہے کہ محمد بن سلمان لمبے دورانیے کے لئے پاکستان آئیں گے، وہ مخصوص چند ساعت کیلئے نہیں آئیں گے۔ وہ ایسے وقت کیلئے آئیں گے جو دونوں اطراف کیلئے آسان بھی ہو اور قابل قبول بھی ہو۔ کوشش یہ ہے کہ ہماری طرف سے پروجیکٹس پر کام مکمل ہو اور جب وہ تشریف لائیں تو ہم اس کا فائدہ اٹھا کر ان کے دستخط لے لیں۔

احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے تسلسل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’میں خود اپنے آپ کو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تصور کرتا ہوں، لیکن کسی بھی اقلیت خصوصاً احمدی جس کا آپ نے تذکرہ کیا، میں اس کو شریعت محمدی ﷺ کے تحت ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا، وہ پاکستان کے قوانین کے حوالے سے بھی، پاکستان میں بحیثیت فعال مسلمان یہ ہمارا فرض ہے‘۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا نہ اس کا جواب ہے نہ ہم اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

Source
 

انقلاب

Chief Minister (5k+ posts)

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدر کے پاس نہیں ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔ آخری مرتبہ اس حوالے سے جو قانون سازی کی گئی وہ یہی تھی کہ اختیار صدر سے لے کر الیکشن کمیشن کو دے دیا جائے۔

آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں میزبان منیزے جہانگیر کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے الیکشن کی تاریخ پر وکلاء تحریک اور اس سے سول ان ریسٹ پیدا ہونے کے حوالے سے نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا یہ معاملہ سول انتشار کی طرف جائے گا۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بڑی ہلچل ہوگی۔

صدر مملکت کے آپ کے کیسے تعلقات ہیں اور کیا الیکشن کی تاریخ پر کوئی ملاقات ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تعلقات ’مناسب ہیں‘۔ لیکن الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ میرا فوکس معیشت، دہشتگردی اور خارجہ پالیسیز پر ہے۔

پاکستان میں الیکشن کب تک ہوجائیں گے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ غیر ضروری طور پر انتخابات کو کھینچا نہیں جائے گا، حلقہ بندیاں مکمل ہونے کا انتظار ہے، اہم بات یہ ہے کہ ’حلقہ بندیاں ٹھیک ہوں ان میں کسی ایک سیاسی جماعت کا رنگ نظر نہ آئے‘، ان میں مینوورنگ قدرے کم ہو۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ’پریشر نہیں رکھنا چاہیے، انہیں اپنا کام درست رکھنا چاہئے‘۔ وزیراعظم ہاؤس اور وفاقی کابینہ الیکشن کمیشن کا حصہ نہیں ہے وہ ایک آزاد ادارہ ہے جسے اپنے پلان کے مطابق کام کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئین پاکستان کی میں پوزیشن ہے وہی پوزیشن میری ہے۔

بلاول کے بیان ’کئیر ٹیکر حکومت چئیر ٹیکر نہ بنے‘ کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اگر انہیں کوئی نئے خدشات پیدا ہوئے ہیں تو اس کا علم نہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما مختلف پوزیشنز لیتے رہتے ہیں، ان میں سے کچھ درست ہوتی ہیں ، کچھ نہیں ہوتیں۔

آصف علی زرداری میثاقِ معیشت کی تجویز پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت خوبصورت تجویز ہے‘، تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ میثاق معیشت میری اپنی ذاتی خواہش بھی ہے اور میں ووٹ اس جماعت کو دوں گا جو معاشی بحالی کا پلان لے کر آئے گی۔

پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے سوال پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ 9 مئی کو کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جرم تھے، ریاست بدلہ نہیں لے گی بلکہ انصاف کرے گی۔

علی وزیر کی گرفتاری اور ان کے مقدمات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’سیاسی بات چیت میں پرامن شرکت، چاہے وہ علی وزیر صاحب ہوں یا کوئی اور صاحب ہوں، یہ ان کا بنیادی حق ہے، جمع ہونے کا حق، اظہار کا حق‘۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اگر ان کے ان حقوق کا مذاق بناتا ہے چاہے ریاست ہی کیوں نہ ہو تو یہ مناسب رویہ نہیں ہے۔ لیکن ان حقوق کو بنیاد بنا کر اگر آپ تفرقہ یا افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

کیا ریاست کو بغاوت کے الزامات عائد کرنے چاہئیۓ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’ریاست نے اگر قانون بنا دیا ہے تو یہ ریاست کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس کو نافذ کرے‘۔

اگر سپریم کورٹ نیب ترامیم کو اسٹرائیک ڈاؤں کر دیتی ہے تو کیا نگراں حکومت ریویو پر جائے گی؟ اس حوالے سے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ظاہر سے اس پر وزارت قانون کی جانب سے سوچ بچار کیا جائے گا اور جو وزارت قانون کی تجویز ہوگی کابینہ اس کے مطابق فیصلہ کرے گی، لیکن اگر ایسا ہوا تو امکانا ہیں کہ ریویو (نظر ثانی کی اپیل) میں جایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت وہ پاورز استعمال کر رہی ہے جو جاتی ہوئی پارلیمنٹ اس کو دے گئی ہے، اچھا قانون تھا یا برا تھا پارلیمنٹ نے یہ قانون بنایا، قانون سازی پارلیمنٹ کا بنیادی اختیار ہے اور موجودہ حکومت کو اس کا دفاع کرنا چاہیے۔

آئی ایس آئی چیف اس مہینے ریٹائر ہو رہے ہیں، کیا آپ انہیں ایکسٹینشن دیں گے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معلومات کا عوامی حلقوں میں کوئی بڑا کردار نہیں ہے، اس کے جو بھی مفہوم ہیں وہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہیں، آئی ایس آئی چیف کی ایکسٹینشن قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ایکسٹینشن پر تمام متعلقہ لوگوں کی رائے جان کر فیصلہ کروں گا۔

ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغان حکومت کے ارادوں اور ان کی صلاحیت کو دیکھ رہے ہیں، افغانستان ریاست کا تصور نہیں ہے جو دہشتگردوں کی دی گئی انفارمیشن کو بارڈر فورسز تک پہنچائے۔

پاکستان کی افغانستان کی حدود کے اندر کارروائی کرنے کے بیانات کے حوالے سے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کا دفاع کرے اور ہم ہر قیمت پر یہ کریں گے‘۔

افغانستان کے اندر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس وقت اس حوالے سے ابھی کچھ زیر غور نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں رجسٹرڈ لوگوں پر کوئی کریک ڈاؤن نہیں کیا جارہا، پھر غیر قانونی افغان مہاجرین ہیں جن کے پاس یہاں رہنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، جن کے خلاف ہم کریک ڈاؤن پلان کر رہے ہیں، غیرقانونی مہاجرین کو پاکستان کی سرزمین چھوڑنی ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمتوں میں آرمی چیف کا بہت بڑا کردار ہے اور اس کردار کے ساتھ حکومتی سپورٹ بھی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے دفاعی اداروں کا 8 سے 10 ارب ڈالرز بجٹ ہے، ہمارے بجٹ کا 17 فیصد دفاع میں جاتا ہے اور اس 17 فیصد میں ملٹری، ائرفورس اور نیوی بھی شامل ہے۔ فوجی بجٹ میں اضافہ ہونا چاہیے۔

سعودی ولی عہد کہ ممکنہ پاکستان آمد پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش اور امید یہ ہے کہ محمد بن سلمان لمبے دورانیے کے لئے پاکستان آئیں گے، وہ مخصوص چند ساعت کیلئے نہیں آئیں گے۔ وہ ایسے وقت کیلئے آئیں گے جو دونوں اطراف کیلئے آسان بھی ہو اور قابل قبول بھی ہو۔ کوشش یہ ہے کہ ہماری طرف سے پروجیکٹس پر کام مکمل ہو اور جب وہ تشریف لائیں تو ہم اس کا فائدہ اٹھا کر ان کے دستخط لے لیں۔

احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے تسلسل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’میں خود اپنے آپ کو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تصور کرتا ہوں، لیکن کسی بھی اقلیت خصوصاً احمدی جس کا آپ نے تذکرہ کیا، میں اس کو شریعت محمدی ﷺ کے تحت ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا، وہ پاکستان کے قوانین کے حوالے سے بھی، پاکستان میں بحیثیت فعال مسلمان یہ ہمارا فرض ہے‘۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا نہ اس کا جواب ہے نہ ہم اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔


Source
ڈالر کیا، تیرے اندر بھی اُسی کا ہاتھ ہے
 

saleema

Senator (1k+ posts)
Es ka matlab hai keh ghazion ne temporarily smuggling rock de hai..Kon log ho Bhai? Kya humain koi Shoodar DNA wala ghulam ibn haram Rajarawal samjha hai keh Zardari or Fazlu ko baap tasleem Karne k baad har army Jernail KO baap banaye sirf es liye keh Bao g or Qatri farari haram Maal sakoon se khaye..
 

Kam

Minister (2k+ posts)
I think new open market rate policy has been introduced in Pakistan.
Exchange companies have been forced to buy less than the market rate and sell at price 1% profit of the bank rate.
So exchange companies are selling their dollars to banks which is causing lower rate in banks. Generals public has nothing to do with it. It was a game of exchange companies and banks.
 

stranger

Chief Minister (5k+ posts)
sahi fermaya... generals ka haath hi hai

160 before regime change operation start
180 when regime change operation completed
320 after 16 months

generals ki maan ke fuu-day main daalay giay haath ka kamal

usdpkr-1-1024x502.png
 

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
ملک کو اس طرح تباہ کرنے اور ڈالر تین سو سے اوپر لیجانے میں بھی باجوے اور اسکا ہاتھ ہے کیا عوام جاہل ہے گدھے کے بچے اصیل ککڑ حرامی
 

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
mere karan arjun aayenge GIF



نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدر کے پاس نہیں ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔ آخری مرتبہ اس حوالے سے جو قانون سازی کی گئی وہ یہی تھی کہ اختیار صدر سے لے کر الیکشن کمیشن کو دے دیا جائے۔

آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں میزبان منیزے جہانگیر کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے الیکشن کی تاریخ پر وکلاء تحریک اور اس سے سول ان ریسٹ پیدا ہونے کے حوالے سے نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا یہ معاملہ سول انتشار کی طرف جائے گا۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بڑی ہلچل ہوگی۔

صدر مملکت کے آپ کے کیسے تعلقات ہیں اور کیا الیکشن کی تاریخ پر کوئی ملاقات ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تعلقات ’مناسب ہیں‘۔ لیکن الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ میرا فوکس معیشت، دہشتگردی اور خارجہ پالیسیز پر ہے۔

پاکستان میں الیکشن کب تک ہوجائیں گے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ غیر ضروری طور پر انتخابات کو کھینچا نہیں جائے گا، حلقہ بندیاں مکمل ہونے کا انتظار ہے، اہم بات یہ ہے کہ ’حلقہ بندیاں ٹھیک ہوں ان میں کسی ایک سیاسی جماعت کا رنگ نظر نہ آئے‘، ان میں مینوورنگ قدرے کم ہو۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ’پریشر نہیں رکھنا چاہیے، انہیں اپنا کام درست رکھنا چاہئے‘۔ وزیراعظم ہاؤس اور وفاقی کابینہ الیکشن کمیشن کا حصہ نہیں ہے وہ ایک آزاد ادارہ ہے جسے اپنے پلان کے مطابق کام کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئین پاکستان کی میں پوزیشن ہے وہی پوزیشن میری ہے۔

بلاول کے بیان ’کئیر ٹیکر حکومت چئیر ٹیکر نہ بنے‘ کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اگر انہیں کوئی نئے خدشات پیدا ہوئے ہیں تو اس کا علم نہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما مختلف پوزیشنز لیتے رہتے ہیں، ان میں سے کچھ درست ہوتی ہیں ، کچھ نہیں ہوتیں۔

آصف علی زرداری میثاقِ معیشت کی تجویز پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت خوبصورت تجویز ہے‘، تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ میثاق معیشت میری اپنی ذاتی خواہش بھی ہے اور میں ووٹ اس جماعت کو دوں گا جو معاشی بحالی کا پلان لے کر آئے گی۔

پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے سوال پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ 9 مئی کو کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جرم تھے، ریاست بدلہ نہیں لے گی بلکہ انصاف کرے گی۔

علی وزیر کی گرفتاری اور ان کے مقدمات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’سیاسی بات چیت میں پرامن شرکت، چاہے وہ علی وزیر صاحب ہوں یا کوئی اور صاحب ہوں، یہ ان کا بنیادی حق ہے، جمع ہونے کا حق، اظہار کا حق‘۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اگر ان کے ان حقوق کا مذاق بناتا ہے چاہے ریاست ہی کیوں نہ ہو تو یہ مناسب رویہ نہیں ہے۔ لیکن ان حقوق کو بنیاد بنا کر اگر آپ تفرقہ یا افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

کیا ریاست کو بغاوت کے الزامات عائد کرنے چاہئیۓ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’ریاست نے اگر قانون بنا دیا ہے تو یہ ریاست کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس کو نافذ کرے‘۔

اگر سپریم کورٹ نیب ترامیم کو اسٹرائیک ڈاؤں کر دیتی ہے تو کیا نگراں حکومت ریویو پر جائے گی؟ اس حوالے سے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ظاہر سے اس پر وزارت قانون کی جانب سے سوچ بچار کیا جائے گا اور جو وزارت قانون کی تجویز ہوگی کابینہ اس کے مطابق فیصلہ کرے گی، لیکن اگر ایسا ہوا تو امکانا ہیں کہ ریویو (نظر ثانی کی اپیل) میں جایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت وہ پاورز استعمال کر رہی ہے جو جاتی ہوئی پارلیمنٹ اس کو دے گئی ہے، اچھا قانون تھا یا برا تھا پارلیمنٹ نے یہ قانون بنایا، قانون سازی پارلیمنٹ کا بنیادی اختیار ہے اور موجودہ حکومت کو اس کا دفاع کرنا چاہیے۔

آئی ایس آئی چیف اس مہینے ریٹائر ہو رہے ہیں، کیا آپ انہیں ایکسٹینشن دیں گے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معلومات کا عوامی حلقوں میں کوئی بڑا کردار نہیں ہے، اس کے جو بھی مفہوم ہیں وہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہیں، آئی ایس آئی چیف کی ایکسٹینشن قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ایکسٹینشن پر تمام متعلقہ لوگوں کی رائے جان کر فیصلہ کروں گا۔

ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغان حکومت کے ارادوں اور ان کی صلاحیت کو دیکھ رہے ہیں، افغانستان ریاست کا تصور نہیں ہے جو دہشتگردوں کی دی گئی انفارمیشن کو بارڈر فورسز تک پہنچائے۔

پاکستان کی افغانستان کی حدود کے اندر کارروائی کرنے کے بیانات کے حوالے سے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کا دفاع کرے اور ہم ہر قیمت پر یہ کریں گے‘۔

افغانستان کے اندر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس وقت اس حوالے سے ابھی کچھ زیر غور نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں رجسٹرڈ لوگوں پر کوئی کریک ڈاؤن نہیں کیا جارہا، پھر غیر قانونی افغان مہاجرین ہیں جن کے پاس یہاں رہنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، جن کے خلاف ہم کریک ڈاؤن پلان کر رہے ہیں، غیرقانونی مہاجرین کو پاکستان کی سرزمین چھوڑنی ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمتوں میں آرمی چیف کا بہت بڑا کردار ہے اور اس کردار کے ساتھ حکومتی سپورٹ بھی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے دفاعی اداروں کا 8 سے 10 ارب ڈالرز بجٹ ہے، ہمارے بجٹ کا 17 فیصد دفاع میں جاتا ہے اور اس 17 فیصد میں ملٹری، ائرفورس اور نیوی بھی شامل ہے۔ فوجی بجٹ میں اضافہ ہونا چاہیے۔

سعودی ولی عہد کہ ممکنہ پاکستان آمد پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش اور امید یہ ہے کہ محمد بن سلمان لمبے دورانیے کے لئے پاکستان آئیں گے، وہ مخصوص چند ساعت کیلئے نہیں آئیں گے۔ وہ ایسے وقت کیلئے آئیں گے جو دونوں اطراف کیلئے آسان بھی ہو اور قابل قبول بھی ہو۔ کوشش یہ ہے کہ ہماری طرف سے پروجیکٹس پر کام مکمل ہو اور جب وہ تشریف لائیں تو ہم اس کا فائدہ اٹھا کر ان کے دستخط لے لیں۔

احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے تسلسل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’میں خود اپنے آپ کو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تصور کرتا ہوں، لیکن کسی بھی اقلیت خصوصاً احمدی جس کا آپ نے تذکرہ کیا، میں اس کو شریعت محمدی ﷺ کے تحت ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا، وہ پاکستان کے قوانین کے حوالے سے بھی، پاکستان میں بحیثیت فعال مسلمان یہ ہمارا فرض ہے‘۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا نہ اس کا جواب ہے نہ ہم اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔


Source
 

ek hindustani

Chief Minister (5k+ posts)

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدر کے پاس نہیں ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔ آخری مرتبہ اس حوالے سے جو قانون سازی کی گئی وہ یہی تھی کہ اختیار صدر سے لے کر الیکشن کمیشن کو دے دیا جائے۔

آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں میزبان منیزے جہانگیر کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے الیکشن کی تاریخ پر وکلاء تحریک اور اس سے سول ان ریسٹ پیدا ہونے کے حوالے سے نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا یہ معاملہ سول انتشار کی طرف جائے گا۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بڑی ہلچل ہوگی۔

صدر مملکت کے آپ کے کیسے تعلقات ہیں اور کیا الیکشن کی تاریخ پر کوئی ملاقات ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تعلقات ’مناسب ہیں‘۔ لیکن الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ میرا فوکس معیشت، دہشتگردی اور خارجہ پالیسیز پر ہے۔

پاکستان میں الیکشن کب تک ہوجائیں گے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ غیر ضروری طور پر انتخابات کو کھینچا نہیں جائے گا، حلقہ بندیاں مکمل ہونے کا انتظار ہے، اہم بات یہ ہے کہ ’حلقہ بندیاں ٹھیک ہوں ان میں کسی ایک سیاسی جماعت کا رنگ نظر نہ آئے‘، ان میں مینوورنگ قدرے کم ہو۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ’پریشر نہیں رکھنا چاہیے، انہیں اپنا کام درست رکھنا چاہئے‘۔ وزیراعظم ہاؤس اور وفاقی کابینہ الیکشن کمیشن کا حصہ نہیں ہے وہ ایک آزاد ادارہ ہے جسے اپنے پلان کے مطابق کام کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئین پاکستان کی میں پوزیشن ہے وہی پوزیشن میری ہے۔

بلاول کے بیان ’کئیر ٹیکر حکومت چئیر ٹیکر نہ بنے‘ کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اگر انہیں کوئی نئے خدشات پیدا ہوئے ہیں تو اس کا علم نہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما مختلف پوزیشنز لیتے رہتے ہیں، ان میں سے کچھ درست ہوتی ہیں ، کچھ نہیں ہوتیں۔

آصف علی زرداری میثاقِ معیشت کی تجویز پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت خوبصورت تجویز ہے‘، تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ میثاق معیشت میری اپنی ذاتی خواہش بھی ہے اور میں ووٹ اس جماعت کو دوں گا جو معاشی بحالی کا پلان لے کر آئے گی۔

پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے سوال پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ 9 مئی کو کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جرم تھے، ریاست بدلہ نہیں لے گی بلکہ انصاف کرے گی۔

علی وزیر کی گرفتاری اور ان کے مقدمات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’سیاسی بات چیت میں پرامن شرکت، چاہے وہ علی وزیر صاحب ہوں یا کوئی اور صاحب ہوں، یہ ان کا بنیادی حق ہے، جمع ہونے کا حق، اظہار کا حق‘۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اگر ان کے ان حقوق کا مذاق بناتا ہے چاہے ریاست ہی کیوں نہ ہو تو یہ مناسب رویہ نہیں ہے۔ لیکن ان حقوق کو بنیاد بنا کر اگر آپ تفرقہ یا افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

کیا ریاست کو بغاوت کے الزامات عائد کرنے چاہئیۓ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’ریاست نے اگر قانون بنا دیا ہے تو یہ ریاست کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس کو نافذ کرے‘۔

اگر سپریم کورٹ نیب ترامیم کو اسٹرائیک ڈاؤں کر دیتی ہے تو کیا نگراں حکومت ریویو پر جائے گی؟ اس حوالے سے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ظاہر سے اس پر وزارت قانون کی جانب سے سوچ بچار کیا جائے گا اور جو وزارت قانون کی تجویز ہوگی کابینہ اس کے مطابق فیصلہ کرے گی، لیکن اگر ایسا ہوا تو امکانا ہیں کہ ریویو (نظر ثانی کی اپیل) میں جایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت وہ پاورز استعمال کر رہی ہے جو جاتی ہوئی پارلیمنٹ اس کو دے گئی ہے، اچھا قانون تھا یا برا تھا پارلیمنٹ نے یہ قانون بنایا، قانون سازی پارلیمنٹ کا بنیادی اختیار ہے اور موجودہ حکومت کو اس کا دفاع کرنا چاہیے۔

آئی ایس آئی چیف اس مہینے ریٹائر ہو رہے ہیں، کیا آپ انہیں ایکسٹینشن دیں گے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معلومات کا عوامی حلقوں میں کوئی بڑا کردار نہیں ہے، اس کے جو بھی مفہوم ہیں وہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہیں، آئی ایس آئی چیف کی ایکسٹینشن قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ایکسٹینشن پر تمام متعلقہ لوگوں کی رائے جان کر فیصلہ کروں گا۔

ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغان حکومت کے ارادوں اور ان کی صلاحیت کو دیکھ رہے ہیں، افغانستان ریاست کا تصور نہیں ہے جو دہشتگردوں کی دی گئی انفارمیشن کو بارڈر فورسز تک پہنچائے۔

پاکستان کی افغانستان کی حدود کے اندر کارروائی کرنے کے بیانات کے حوالے سے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کا دفاع کرے اور ہم ہر قیمت پر یہ کریں گے‘۔

افغانستان کے اندر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس وقت اس حوالے سے ابھی کچھ زیر غور نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں رجسٹرڈ لوگوں پر کوئی کریک ڈاؤن نہیں کیا جارہا، پھر غیر قانونی افغان مہاجرین ہیں جن کے پاس یہاں رہنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، جن کے خلاف ہم کریک ڈاؤن پلان کر رہے ہیں، غیرقانونی مہاجرین کو پاکستان کی سرزمین چھوڑنی ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمتوں میں آرمی چیف کا بہت بڑا کردار ہے اور اس کردار کے ساتھ حکومتی سپورٹ بھی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے دفاعی اداروں کا 8 سے 10 ارب ڈالرز بجٹ ہے، ہمارے بجٹ کا 17 فیصد دفاع میں جاتا ہے اور اس 17 فیصد میں ملٹری، ائرفورس اور نیوی بھی شامل ہے۔ فوجی بجٹ میں اضافہ ہونا چاہیے۔

سعودی ولی عہد کہ ممکنہ پاکستان آمد پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش اور امید یہ ہے کہ محمد بن سلمان لمبے دورانیے کے لئے پاکستان آئیں گے، وہ مخصوص چند ساعت کیلئے نہیں آئیں گے۔ وہ ایسے وقت کیلئے آئیں گے جو دونوں اطراف کیلئے آسان بھی ہو اور قابل قبول بھی ہو۔ کوشش یہ ہے کہ ہماری طرف سے پروجیکٹس پر کام مکمل ہو اور جب وہ تشریف لائیں تو ہم اس کا فائدہ اٹھا کر ان کے دستخط لے لیں۔

احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے تسلسل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’میں خود اپنے آپ کو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تصور کرتا ہوں، لیکن کسی بھی اقلیت خصوصاً احمدی جس کا آپ نے تذکرہ کیا، میں اس کو شریعت محمدی ﷺ کے تحت ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا، وہ پاکستان کے قوانین کے حوالے سے بھی، پاکستان میں بحیثیت فعال مسلمان یہ ہمارا فرض ہے‘۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا نہ اس کا جواب ہے نہ ہم اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔


Source
Ye wazeer e Aazam nahi, balki nigran wazeer e Aazam hain
 

g i joe

Politcal Worker (100+ posts)
صحیح جناب تھتھے پوشی پہ لگے ہیں ان کے لئے عرض ہے

صاحب جے نیڑے آن نا دیوے
شٹیاں نوں ہتھ پان نا دیوے
لمبئی جئی اک بنا لے ہک
فیر تو صاحب دے شٹے چک
شٹے چک بھئی شٹے چک
خودداری دے پھٹے چک
 

Digital_Pakistani

Chief Minister (5k+ posts)
Bajwa also promised political and economic stability, but eventually made all worse. Reason they lack the vision/democratic thinking.
 

pinionated

Minister (2k+ posts)
It’s not the money but leadership. You have fuc&in zero credibility, experience, knowledge or track record… chalein hain baat karney… MC, people like u cannot fix Pakistan with trillion dollars
 

taban

Chief Minister (5k+ posts)
سعودی ولی عہد آئیں گے
میٹھے چاول لائیں گے
سارےچَول کھائیں گے
خوب جشن منائیں گے
عامیوں کو ترسائیں گے
اور مقروض کروائیں گے
سعودی ولی عہد آئیں گے
 

Back
Top